’اوپر‘ سے حکم آیا ہے


چند دن ہوئے، امیرِ جماعت اسلامی، جناب سراج الحق کے ایک بیان نے سیاسی ہلچل میں اضافہ کر دیا۔ اُن کے مطابق، صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ، جناب پرویز خٹک نے کہا تھا کہ سینیٹ الیکشن میں ووٹ دینے کا حکم ’’اوپر‘‘ سے آیا ہے۔ سراج الحق صاحب نے یہ وضاحت نہیں کی کہ ’’اوپر‘‘ سے خٹک صاحب کی کیا مراد تھی۔ نہ ہی بتایا کہ ُانہوں نے پرویز خٹک سے مزید استفسار کیوں نہیں کیا؟ البتہ سراج الحق کے انداز بیان سے محسوس ہوا کہ ’’اوپر‘‘ سے اُن کی مراد کوئی غیر سیاسی طاقت تھی۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ’’اوپر‘‘ سے آنے والے حکم کا عمل دخل ضرورت سے زیادہ رہا ہے۔ اِس لئے ’’اوپر‘‘ سے حکم کے بارے میں قیاس آرائی ہونا، معمول کا عمل تھا۔ ہر کسی نے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اندازہ لگایا۔ نواز شریف نے سراج الحق کی بات کو اپنے بیانیے کی تائید سمجھ کر بہت اہمیت دی۔ اُنہوں نے بارہا عمران خان پر ’’اوپر‘‘ سے حکم لینے کا الزام دھرا۔ میڈیا نے پرویز خٹک سے سوال کئے۔ اُن کی توجیہہ بہت سیدھی سادی تھی۔ فرمایا کہ خیبر پختونخوا کی قیادت، بنی گالہ سے آنے والی ہدایت کو ’’اوپر‘‘ کا حکم سمجھتی ہے۔ ہدایت عمران خان کی طرف سے موصول ہوئی تھی۔ سراج الحق صاحب نے بہت آسانی سے پرویز خٹک کی وضاحت قبول کر لی مگر بہت سے تجزیہ کاروں کے شکوک اپنی جگہ موجود رہے۔ اُن کا خیال ہے کہ اگر حکم عمران خان کا تھا تو پرویز خٹک کو اشاروں میں بات کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔

سیاست میں الزامات اور قیاس آرائیاں روز کا معمول ہیں۔ عوام ’’اوپر‘‘ سے حکم دینے والے کی شناخت بارے سوچتے رہیں گے۔ مگر ’’اوپر‘‘ سے حکم کی اصطلاح کوئی نئی نہیں۔ سرکاری نوکری کے دوران ’’اوپر‘‘ سے آنے والے حکم کا تذکرہ سننے میں آتا رہا۔ ضیاء الحق کے دور حکومت کا ایک واقعہ بہت مشہور ہوا۔ ڈپٹی کمشنر گجرات نے اپنے ماتحتوں کو جمع کر کے بتایا ’’آج سب افسران، ظہر کی نماز ضلع کچہری کی مسجد میں ادا کریں گے کیونکہ آج صبح ’’اوپر‘‘ سے حکم آیا ہے۔‘‘ ایک منہ پھٹ مجسٹریٹ سے نہ رہا گیا۔ اُس نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’سر! ’’اوپر‘‘ سے آنے والا حکم تو چودہ سو سال پہلے آیا تھا۔‘‘

’’اوپر‘‘ سے کس نے حکم دیا ہے؟ حکام بالا عام طور پر اس کی وضاحت نہیں کرتے۔ ایک دفعہ اِس ابہام نے ہمارے ایک سینئر افسر کے لئے اتنی مشکل پیدا کی کہ ضلعی انتظامیہ کے بارے میں اُن کا رویہ تبدیل ہو گیا۔ وہ سی ایس پی کیڈر سے تعلق رکھتے تھے۔ صرف چند ماہ اسسٹنٹ کمشنر کی ذمہ داری نبھانے کے بعد، باقی ماندہ نوکری کے دوران فیلڈ میں کوئی عہدہ قبول کرنے سے معذرت کر لی۔ وہ نہ کبھی ڈپٹی کمشنر رہے، نہ انہیں کمشنر کا عہدہ بھایا اور نہ چیف سیکرٹری بننے کی تمنا باقی رہی۔ رویے میں اِس تبدیلی کی وجہ ایک واقعہ تھا۔ اِس دلچسپ قصے میں ’’اوپر‘‘ سے آنے والے حکم نے کلیدی کردار ادا کیا۔ 1960ء کی دہائی کے اولین حصے میں اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہوئے۔ اِس ذمہ داری پر چند ہفتے گزرے تھے کہ ڈپٹی کمشنر نے بلا بھیجا۔ بتایا کہ ایک قومی مسئلے پر کسی مخصوص سیاسی جماعت کے خلاف، عوام کی طرف سے احتجاجی جلوس کا اہتمام کیا جائے۔ جلوس کی خبر، تصویر کے ساتھ اخبار میں چھپوائیں۔ نوجوان اسسٹنٹ کمشنر بہت حیران ہوئے۔ اِس غیر معمولی حکم کی وجہ پوچھی۔ جواب میں ڈپٹی کمشنر نے صرف اتنا کہا “This is an order from the highest quarter.” اسسٹنٹ کمشنر کو حیرت ہوئی کہ بظاہر غیرقانونی نظر آنے والا حکم ’’اوپر‘‘ کی سطح سے آیا ہے۔ نوجوان افسر کے والد مشہور قانون دان تھے۔ بیٹے کے ذہن کی آبیاری قانون کے مطابق زندگی گزارنے کے اسباق سے ہوئی تھی۔ وہ اِس غیر قانونی حکم کو کیسے قبول کرتے۔ سرکاری نوکری کا اوائل تھا، خود اعتمادی کی کمی تھی، اپنے سینئر سے بحث نہ کی۔ حکم وصول کرنے کے بعد واپس آ گئے۔ مزید کسی پیش رفت کی ہمت نہ ہوئی۔

چند روز گزرنے کے بعد ڈپٹی کمشنر نے دوبارہ طلب کیا۔ تحمل سے نوآموز افسر کو سمجھایا ’’یہ اتنا مشکل کام نہیں۔ تحصیلدار اور شہر کے تھانیدار کو اعتماد میں لیں۔ وہ کسی چھوٹے سے جلوس کا انتظام کر لیں گے۔ اخبار میں خبر آئے اور تصویر چھپے، بس اتنا کافی ہے۔‘‘ چند دن گزرنے کے بعد، ڈپٹی کمشنر نے فون کر کے پوچھا تو اُن کی پریشانی میں اضافہ ہو گیا۔ بار بار خیال آتا کہ کیوں اِس غیر قانونی کام پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اِسی پریشانی میں چند دن اور گزر گئے۔ ڈپٹی کمشنر نے ایک بار پھر ٹیلی فون پر پوچھا تو نوجوان افسر کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا۔ اُس نے سوچا کہ (Highest quarter) یا سب سے’’ اوپر‘‘ کی سطح کے حاکم کو کیا ضرورت آن پڑی ہے کہ وہ اِس قسم کا غیر قانونی حکم دیں۔ افسر نے ذہن پر زور دیا کہ ’’اوپر‘‘ کا حکم کہاں سے آیا ہو گا؟ نوجوان اسسٹنٹ کمشنر نے اندازہ لگایا کہ ملک کا سب سے بلند مرتبہ حاکم تو صدر ایوب ہے۔ کیوں نہ اُنہی سے پوچھا جائے۔ آئو دیکھا نہ تائو، ٹیلی فون آپریٹر کو حکم دیا کہ صدر ایوب سے میری بات کروائیں۔ چند گھنٹوں بعد اُن کی رسائی صدر کے ملٹری سیکرٹری تک ہو گئی۔ بات ہوئی تو اُنہوں نے ملٹری سیکرٹری کو کہا ’’سر! معاملہ بہت حساس ہے اور اِس کا ذکر صرف صدر صاحب سے ہی ہو سکتا ہے۔‘‘ ملٹری سیکرٹری نے مزید کریدا تو اسسٹنٹ کمشنر نے اعتماد سے جواب دیا ’’سر! مجھے ایک غیر قانونی کام کے لئے مجبور کیا جا رہا ہے اور میرے سینئر کہتے ہیں کہ یہ صدر ایوب کا حکم ہے۔ میرا دل نہیں مانتا کہ صدر پاکستان مجھے غیر قانونی کام پر مجبور کریں گے۔ اس لئے، میں صرف انہی سے بات کروں گا۔‘‘ اُسی شام قصرِ صدارت سے پیغام ملا کہ اگلے روز صبح نو بجے صدر ایوب سے ملاقات طے ہو گئی ہے۔

وہ ایوب خان کے کمرے میں داخل ہوئے تو صدر پاکستان نے چھوٹتے ہی پوچھا ’’نوجوان آپ کو کیا پریشانی ہے؟‘‘ سارا قصہ تحمل سے سنا۔ نوجوان افسر کو رخصت کرتے ہوئے ایوب خان نے کہا ’’تم نے ٹھیک سمجھا، میں نے کوئی حکم نہیں دیا۔ جائو اور قانون کے مطابق اپنا کام کرو۔‘‘ راولپنڈی سے واپس آنے پر اسسٹنٹ کمشنر کا سینہ بہت چوڑا ہو چکا تھا۔ اُنہوں نے ڈپٹی کمشنر کو اعتماد سے فون کیا۔ بتایا کہ صدر پاکستان سے مل آیا ہوں، اُنہوں نے کوئی غیر قانونی حکم نہیں دیا۔

اُن کی بات سُن کر ڈپٹی کمشنر سناٹے میں آ گئے۔ کچھ دیر بعد ڈپٹی کمشنر کے علاوہ کمشنر صاحب بھی اُن کے دفتر پہنچے۔ سخت پوچھ گچھ ہوئی۔ بالآخر وضاحت ہو گئی کہ ’’اوپر‘‘ سے آنے والا حکم صدر ایوب کی طرف سے نہیں بلکہ گورنر مغربی پاکستان، نواب کالا باغ کی جانب سے تھا۔ اِس پریشان کن واقعے کے بعد نوجوان افسر نے فیصلہ کیا کہ وہ ضلعی انتظامیہ کے عہدوں کے لئے ناموزوں ہیں۔

پاکستان میں ’’اوپر‘‘ سے آنے والے احکامات کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ قصہ بیان کرنے کا مقصد تھا کہ اگر سراج الحق صاحب، جناب پرویز خٹک سے بروقت وضاحت مانگ لیتے تو نہ اُنہیں ڈرامائی انداز میں ’’اوپر‘‘ سے آنے والے حکم کا انکشاف کرنے کی ضرورت پڑتی اور نہ یہ ابہام، میڈیا میں خیال آرائی کا موضوع بنتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood