پشاور کے چڑیا گھر میں جانور کیوں مر رہے ہیں؟


پشاور چڑیا گھر

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونوا کے دارالحکومت پشاور کے چڑیا گھر میں 30 جانوروں کی ہلاکت کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹ میں موت کی بنیادی وجہ عملے کی درست تربیت نہ ہونا اور جنگل جیسے قدرتی ماحول کی عدم دستیابی بتائی گئی ہے۔

پشاور چڑیا گھر کو فروری کے مہینے میں عوام کی تفریح کے لیے کھول دیا گیا تھا جس میں اب تک 30 چھوٹے اور بڑے جانور ہلاک ہو چکے ہیں۔

خیبر پختونخوا حکومت نے ہلاکتوں کی انکوائری کے لیے تحقیقاتی کمیٹی بنائی تھی تاکہ اموات کی وجوہات معلوم کر سکے۔

اسی کمیٹی کے ایک رکن اور سابق چیف وائلڈ لائف کنسرویٹر محمد ممتاز ملک نے بی بی سی پشتو کے نامہ نگار اظہاراللہ کو بتایا کہ زیادہ تر چڑیا گھر میں چھوٹے پرندے ہلاک ہوئے ہیں جس کی بنیادی وجہ چڑیا گھر میں ان کے لیے قدرتی ماحول کی عدم دستیابی ہے۔

ممتاز ملک کے مطابق جنگلی جانور چونکہ قدرتی ماحول میں رہتے ہیں اور ان کے لیے نئے ماحول کا عادی ہونے میں وقت لگتا ہے لیکن بہتر سہولیات دینے سے وہ آسانی سے عادی ہو سکتے ہیں۔

ملک ممتاز سے جب پوچھا گیا کہ کیا چڑیا گھر میں ڈاکٹر ہر وقت موجود ہوتا ہے، تو انھوں نے بتایا کہ انکوائری رپورٹ میں یہ سامنے آیا ہے کہ دن کے اوقات میں ڈاکٹر جانوروں کے علاج کے لیے موجود ہوتے ہیں لیکن عملے کی تربیت اتنی نہیں جتنی ہونی چاہیے اور پشاور چڑیا گھر میں عام بیماریوں کے علاج کے لیے سہولیات بھی موجود نہیں ہیں۔

پشاور چڑیا گھر

انھوں نے کہا کہ ’چڑیا گھر کے ڈاکٹرز کو خصوصی تربیت دی جاتی ہے کہ کس طرح جنگلی جانوروں کے صحت کا خیال رکھا جائے۔ تاہم جب ایک جانور بیمار پڑ جائے تو ان کے بچنے کے امکانات صرف5 فیصد ہوتے ہیں۔’

انھوں نے لاہور اور اسلام آباد کے چڑیا گھروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں ہر بھی جانوروں کی اموات ہوتی ہیں لیکن یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ چڑیا گھر کے لیے ضروری سہولیات کا خیال رکھا جائے کیونکہ جانور بے زبان ہوتے ہیں اور تکلیف کے وقت وہ یہ نہیں بیان کر سکتے کہ ان کو کیا مسئلہ درپیش ہے۔

محمد ممتاز ملک کے مطابق انکوائری رپورٹ میں برفانی تیندو کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے جبکہ پرندے اور نیل گائے سانس کی بیماری کہ وجہ سے مرے ہیں۔

ایسا بھی ہوتا ہے کہ چڑیا گھر میں ایک جانور دوسرے کو زخمی کر دیتا ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بندر کو بھڑیے نے زخمی کیا تھا کیونکہ وہ اس کے پنجرے میں گیا تھا جس کی وجہ سے وہ مرا جبکہ ہرن نے پنجرے سے ٹکر ماری تھی اور گہری چوٹ لگنے سے اس کی موت واقع ہوئی ہے۔

پشاور چڑیا گھر

ممتاز ملک نے بتایا کہ حکومت کو یہ تجویز دی گئی ہے کہ چڑیا گھر میں پنجروں کے اندر گھاس اگائی جائے تاکہ جنگلی جانوروں کو جنگل جیسا قدرتی ماحول میسر ہو اور عوام کی آگاہی کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں تاکہ وہ پنجروں میں بند جانوروں کو تنگ نہ کریں۔

ماہر حیوانات اور ڈائریکٹر لائیو سٹاک ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر معصوم شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی چڑیا گھر میں تربیت یافتہ عملے کہ اشد ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ جہاں تک پشاور چڑیا گھر کا سوال ہے تو اس میں جو عملہ تعینات کیا گیا ہے اس کی تربیت اتنی نہیں جتنی ہونی چاہییے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ چڑیا گھر میں چھوٹے اور بڑے جانوروں کے کے لیے الگ الگ ڈاکٹروں کی ضرورت ہوتی تاکہ وہ جانوروں کے معمول کے بیماریوں بارے تشخیص اور علاج کر سکیں۔

اُن کے مطابق ‘حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام متعقلہ اداروں، جیسا کہ جامعات کے وٹرنری اور اینیمل سائنسز کے شعبوں کے ساتھ ایک ساتھ کام کر سکیں اور اس قسم کے اموات کا روک تھام ہو سکیں۔‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp