جمہوریت میں لیفٹ رائٹ کا چکر


شہر کے مضافاتی علاقوں میں بھی دیہات جیسی زندگی ہوتی ہے، بچپن ایسے ہی علاقے میں گزرا جہاں کا طرز زندگی بڑا روایتی قصے کہانیوں جیسا تھا، اس لیے کہ یہ باتیں اب کتابوں میں بھی لکھنے والوں نے چھوڑ دیں، کہ کیسے ایک خاندانی نظام اور پھر گھر سے باہر باہر محلہ داری اس کے بعد علاقے کا میل ملاپ، ایک دوسرے کا خیال رکھنا، دکھ سکھ میں ساتھ دینا، پریشانی اور مشکل میں مدد کو آنا، کسی بھی کام میں ایک دوسرے سے مشاورت، بڑوں کا عزت واحترام خصوصاً ان سے اہم معاملات پر فیصلے لینا اور پھر ان پر عمل کرنا۔ لوگ ایک کمیونٹی کی شکل میں ملکر کام کرتے تھے، مجھے یاد ہے علاقے کے پڑھے لکھے افراد نے ایک سوسائٹی بنائی اور اس کے عہدیداروں میں ہر طرح کے لوگوں کی نمائندگی کا خیال رکھا، بڑی عمر والے، کم پڑھے لکھے ہر برادری سے تعلق رکھنے والے شامل کئے۔ جنہوں نے بڑھ چڑھ کر سوسائٹی کے لیے نہ صرف فنڈز اکٹھے کئے بلکہ کسی بھی کام کیلئے دن رات ایک کردیا۔

ان میں ایک بات بڑی اچھی تھی وہ سوسائٹی کے الیکشن تھے، جس میں کام کرنے اور عہدے کے شوقین ہر طرح کے لوگوں کو انتخاب میں حصہ لینے کا موقع دیا جاتا۔ سوسائٹی کے ممبران کی تعداد چند برسوں میں سیکڑوں میں پہنچ گئی اس عمل کے دوران ہر ایک کی رائے کا احترام کیا جاتا۔ اکثریت حاصل کرنے والے جیتنے کے بعد ہارنے والوں کو تعاون کی پیشکش کرتے اور پھر مل جل کر سوسائٹی کے معاملات چلاتے۔ ہارے والوں کے اعتراضات کو بھی بڑی اہمیت دی جاتی اور اس کو دور کرنے کے لئے کوشش کی جاتی۔

اس سب کا مقصد جمہوری عمل اور سوچ کی بنیاد کے بارے میں بتانا تھا، یہی لوگ آگے چل کر سیاسی جماعتوں کے سرگرم کارکن کے طور پر کام کرتے اور اپنا کردار ادا کرتے الیکشن میں ووٹ کا حق استعمال کرنے سے پہلے باقاعدہ کئی نشستیں ہوتیں اور جس پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینا ہوتا اس کے ساتھ بھی ملاقاتیں کی جاتیں، اس کے پارٹی پروگرام اور شخصیت دونوں کو زیر بحث لانے کے بعد حتمی فیصلہ ہوتا کہ کسے لانا ہے۔

یہ شاید 70 کی دہائی تک ہی رہا، جنرل ضیاء نے سب کچھ تہس نہس کردیا۔ اس نے ان سوسائٹیوں کو پہلے اسلامی رنگ دیا اور پھر غیر جمہوری کر دیا۔  جمہوریت کی نفی اسی وقت ہوجاتی ہے جب فیصلے یکطرفہ ٹھونسے جائیں۔ جب دوسرے کی بات سننے سے انکار ہوجائے مشترکہ فیصلے بلڈوز ہونے لگیں۔

وہ پھر ایک گھرانہ ہو، محلہ ہو، علاقہ یا اسمبلی اور حکومت ہر جگہ آہستہ آہستہ ایک دوسرے کے لیے جگہ (سپیس ) تنگ ہونے لگی، دوسرے کو سننا اور اس کی رائے کا احترام کرنا یعنی جمہوریت کی بنیاد ڈگمگانے لگی۔

ملکی سیاست میں جماعتیں بھی ہیں، ان کے پروگرام بھی ہیں، وعدے اور دعوے بھی ہیں۔ مگر وہ نظریہ کی ایک حساس اور باریک لائن بتدریج معدوم ہونے لگی۔ کسی دور میں بائیں اور دائیں کی تفریق شاید نیو ورلڈ آرڈر کے تحت نظریہ ضرورت اور مفادات کی بھینٹ چڑھا دی گئی۔

یہ بھی کام لیفٹ رائٹ کرنے والوں نے بطریق احسن انجام دیا۔ وہ جیسے بھی تھے کچھ نظریہ ضرور رکھتے تھے۔ اس کی کوئی بنیاد تھی۔ اگرچہ دائیں والے بعد میں بنیاد پرست زیادہ کہلائے لیکن کوئی بھی نظریہ ہو تو بنیاد پرستی کا طعنہ بھی بُرا نہیں۔

پاکستان میں جمہوریت کے نعرے سن سن کر نئی نسل کو جیسے اس لفظ سے چڑ ہوگئی ہے۔ اس کی تعریف اور عمل دونوں کا مظاہرہ وہ دیکھ چکے ہیں۔ اقتدار اور اختیار کے حصول کی سیاست شاید کوئی بُری نہ ہوتی لیکن مخالفین کو راہ سے ہٹانے کیلئے ہر قسم کے سیاسی اور غیر سیاسی ہتھیاروں کا استعمال جس میں اخلاقیات کی تمام حدیں تک پھلانگ دی جاتی ہیں۔ جیت کی خاطر جھوٹ کا سہارا کافی نہیں رہا، نہ جانے کیا کچھ کرنا پڑ جاتا ہے۔

کہتے ہیں ہمارے ملک میں ایک عام آدمی کا ذھن سیاستدان اور پولیس والے پڑھ لیتے ہیں وہ اس کے مزاج کے مطابق کارروائی ڈالنے کے ماہر ہوچکے ہیں۔ نظریہ اور جمہوریت کس بلا کا نام ہے، وہ شاید اب تک کوئی نہیں جان سکا۔ کیونکہ لیفٹ رائٹ کا نیا چکر چل پڑا ہے وہ خود لوگوں کا ذھن بنا لیتے ہیں۔

لیکن دوسری جانب عوام بھی اب کافی حد تک معاملہ سمجھ گئے ہیں، اپنے حقوق سے زیادہ غافل نہیں، انہیں جمہوریت کی اساس کو جاننا ہوگا اور خود اپنے بائیں اور دائیں کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ دنیا بھر میں لیفٹ رائٹ کا چکر اب زیادہ دیر چل نہیں پاتا۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar