یوم صحافت۔۔۔ راہ احتیاط ہی میں عافیت ہے


میں جانتاہوں کہ یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن کیوں منایا جاتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے کی بابت مگر زیادہ علم نہیں اور یہ بات بالکل نہیں جانتا کہ سال کے چند خاص دن باپ،بیٹی یا ماں کے نام کیوں مختص کردئیے جاتے ہیں۔ ایسے ایام کا ذکر کرنے کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کیونکہ 3 مئی کی صبح اُٹھ کر اخبارات دیکھے تو پتہ چلا کہ اس دن کو صحافت کا دن بھی کہا جاتا ہے۔ یہ جان لینے کے بعد میں نے یہ معلوم کرنے کا تردد ہی نہیں کیا کہ کیوں۔ یقینا کوئی ٹھوس وجہ رہی ہوگی۔

صحافت کا ذکر چھڑے تو اس پیشے کی ”تقدیس“ کے بارے میں لفاظی شروع ہوجاتی ہے۔ اس کی بدولت صحافی انسان نہیں کسی مشن پر مامور رضا کار بناکر پیش کئے جاتے ہیں جو ہر صورت اپنے حقِ آزادی کا تحفظ کرتے ہوئے لوگوں کو صرف سچ بتانے کی جدوجہد میں مصروف نظر آتے ہیں۔ کاش میں بھی ایسا ہی ایک صحافی ہوتا۔ منافق البتہ ہرگز نہیں ہوں۔ لہذا یہ بات تسلیم کرنے میں ہرگز شرم محسوس نہیں کرتا کہ میں صحافت کے شعبے میں اس لئے آیاکہ اس پیشے کے سوا کسی اور دھندے کے قابل نہیں تھا۔ نوکری لگی رہی۔ روزی چلتی رہی۔

اس پیشے کی بدولت تھوڑی شہرت بھی مل گئی۔ حکمرانوں سے شناسائی ہوگئی۔ اس شناسائی سے مناسب فوائد اگر حاصل نہیں کرپایا تووجہ اس کی یہ نہیں کہ میں بہت اصول پسند اور ایمان دار ہوں۔ بنیادی حقیقت فقط اتنی ہے کہ میں جانتا ہی نہیں کہ بااختیار لوگوں سے صحافت کی وجہ سے دوستی نما رشتہ استوار ہوجائے تو اس سے کیا ”کام“ نکلوائے جاسکتے ہیں۔ایسی بے وقوفانہ سادگی کو اصول پسندی کہتے ہوئے اترانے کا مجھ میں حوصلہ نہیں۔ ربّ کریم سے اگرچہ التجا ہے کہ تو صرف اتنی کہ مرتے دم تک صحافت کے ذریعے ہی رزق کمانے کا سلسلہ جاری رہے۔ عمر کے آخری حصے میں بے روزگاری کے عذاب سے محفوظ رہوں۔

انتہائی خلوص سے یہ دُعا مانگنے کے بعد مگر مجھے کچھ دنوں سے یہ خوف لاحق ہے کہ شاید میری یہ تمنا پوری نہیں ہوپائے گی۔ ہر دور کی صحافت کے اپنے ڈھنگ اور تقاضے ہوتے ہیں۔ گزشتہ صدی تک پرنٹ کا بول بالاتھا۔ اس کے تقاضوں کو میں خوب سمجھ گیا۔ جنرل ضیاءالحق کے دور میں کل وقتی صحافت سے وابستہ ہوا۔ان دنوں سنسرشپ تھی۔ بہت وضاحت سے بتادیا جاتا تھا کہ کیانہیں لکھنا۔ جو بات کہنے کی اجازت نہیں تھی اسے کسی نہ کسی طورکہہ دینے کا ڈھنگ سیکھنے میں اذیت نہیں تخلیقی مشق کی لذت محسوس ہوتی تھی۔ کئی دن اس لذت سے لطف اٹھانے میں گزرجاتے۔

صحافت اب سنا ہے کہ محض صحافت نہیں رہی۔5th Generation Warنام کی کوئی بلانازل ہوچکی ہے۔ اسے Hybrid War بھی کہا جاتا ہے۔ ہمیں بتایا جارہا ہے کہ صحافت اس جنگ کا ایک ہتھیار یا Toolہے۔ پاکستان کی بقاءاور سلامتی کے دشمن ملک ہمارے صحافیوں پر مختلف حوالوں سے اثرانداز ہوکر ان سے ایسی ”خبریں“ یا مضامین لکھواتے ہیں جو لوگوں کو گمراہ یا کنفیوز کرتے ہوئے قومی مفادات سے بیگانہ بنادیتے ہیں۔ صحافی جب دشمن کی مسلط کردہ Hybrid Warکے سپاہی بن جائیں تو قومی سلامتی خطرے میں پڑجاتی ہے۔ قومی سلامتی کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے ایسے ”صحافیوں“ سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔

مجھے Hybrid Warکا ککھ پتہ نہیں۔ انگریزی صحافت سے ٹی وی شوز اور کالم نگاری کی جانب منتقل ہونے کے بعد سے میں کئی برسوں تک خارجہ امور کے بارے میں لکھنے کے باوجود اب گوشہ نشین ہوچکا ہوں۔ کسی غیر ملکی سے عرصہ ہوا ملاقات ہی نہیں ہوئی۔ گزشتہ دس برسوں میں صرف ایک بار دو روز کے لئے افغانستان گیا۔ وہاں کی حکومت نے پاکستانی صحافیوں کے ایک وفد کو بلارکھا تھا۔ اس میں خاموشی سے شامل ہوا اور وطن لوٹ آیا۔ 2015 میں تھوڑے دنوں کو بے روزگار ہوا تو ایک ہفتے کے لئے برطانیہ چلاگیا۔ وہاں لندن میں میری دو بہنیں رہتی ہیں۔ ان کے ساتھ وقت گزارا۔ نوجوانی کے دنوں سے ایک صحافی ہمرازاحسن میرا دوست ہے۔ اس کے ہاں نازل ہوکر ماضی کے دن یاد کرتا رہا۔ مانچسٹر میں ایک نوجوان صحافی ہے میاں سہیل- وہ بے چارہ ڈرائیور بن کر مجھے ہر جگہ گھماتا رہا۔ کسی گورے سے وہاں ٹیوب میں بھی بات کرنے کا موقعہ نہیں ملا۔

2016 میں اچانک بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ آصف علی زرداری کئی دنوں سے ٹی وی پر نظر نہیں آئے۔ ان کا فون آیا تو انٹرویو کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ وہ فوراَ راضی ہوگئے۔ ٹکٹ لیا۔ نیویارک چلاگیا۔ 13سال بعد امریکہ گیا تھا مگر صرف نیویارک میں  3 دن رہ کر آصف صاحب کا انٹرویو ریکارڈ کیا اور وطن لوٹ آیا۔ سی آئی اے کا دفتر واشنگٹن میں ہے۔ اس کا کوئی بہت ہی نچلی سطح کا افسر بھی مجھے ملنے نیویارک نہیں آیا۔ شاید سی آئی اے میری امریکہ میں موجودگی سے بے خبر رہی۔

ٹھوس حقائق کی بنیاد پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ گزشتہ دس برسوں سے میں اس کیفیت میں ہوں کہ دشمن کا کوئی ایجنٹ مجھے  Hybrid War کے لئے استعمال کرنے کی خاطر کوئی ایک ملاقات کرنے کا موقع بھی حاصل نہیں کر پایا۔ کہا جاسکتا ہے کہ میں دشمن کے Influence سے مکمل طورپر بچا ہوا ہوں۔ وطنِ عزیز کے دشمنوں کی مسلط کردہ  Hybrid War کے سپاہیوں سے قطعی محفوظ رہتے ہوئے بھی لیکن مجھے یقین نہیں ہے کہ میں جو صحافت کررہا ہوں اسے قومی سلامتی کے لئے خطرہ سمجھا جارہا ہے یا نہیں۔

اپنے روزگار کے تحفظ کے لئے لہذا ہر وقت ”ٹیوے“لگاتا رہتا ہوں۔ وہ ”صحافی“ جو ان دنوں قومی مفادات کے نگہبان شمار ہوتے ہیں ان کی تحریروں کو بہت غور سے پڑھتا ہوں۔ انہیں انتہائی ادب سے ٹی وی کی بدولت سنتا ہوں۔ یہ کالم لکھتے ہوئے میں بہت خلوص سے یہ کوشش کرتا ہوں کہ مذکورہ ”صحافی“ جن خیالات کے پرچار پر زور دیتے ہیں ان کو بظاہر رد کرتے دلائل ذہن میں نہ آئیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ یہ احتیاط مجھے ”صحافی“ رہتے ہوئے ہی رزق کمانے میں آسانیاں فراہم کرے گی۔ آپ سے بھی دُعاﺅں کا طلب گار ہوں۔ صحافی کو کبھی ”صراطِ مستقیم“ پر چلنا ہوتا تھا۔ ان دنوں ”راہِ احتیاط“ پر ٹکے رہنے ہی میں عافیت ہے۔ 3 مئی صحافت کا عالمی دن ہے تو اس دن میں اس راہ پر ٹکے رہنے کا عہد کرتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).