تاریخِ انسانیت کا محسن ۔ کارل مارکس


جدید انسانی معاشروں میں جن افراد نے اپنے نقوش چھوڑے ہیں ان میں سب سے زیادہ واضح اثرات کارل مارکس کے ہیں۔ کچھ لوگ جغرافیے تبدیل کرتے ہیں، کچھ اقوام کو بدلتے ہیں لیکن کارل مارکس نے صدیوں سے اپنے محور پر بہتےہوئے معاشی نظام کا دھارا یکسر تبدیل کرکے تاریخ کا رخ ہی پلٹ کر رکھ دیا۔ ہم جب بھی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس میں بہت سے ایسے افراد ملتے ہیں جو مذہب، معاشرے اور معیشت کو چیلنج کرتے نظر آتے ہیں۔ انسانی تاریخ کا یہ حکیم جو کہ محض ایک انسان تھا، اسے نہ رسول ہونے کا دعویٰ تھا نا ہی صاحب ِ الہام ہونے کا۔ انسانیت کو ایک ایسا نظام دے گیا جو جہاں جہاں خود نافذ ہوا وہاں اس نے دیرپا اثرات مرتب کیے اور جہاں یہ نظام نافذ نہیں ہوپایا، ان معاشروں اور معیشتوں کو بھی اپنے نظام میں انہی خطوط پر تبدیلیاں لانا پڑیں جن کا کارل مارکس خواہاں تھا۔

کٹر یہودی گھرانے میں آنکھ کھولنے والے اس حکمت پرور بوڑھے نے جب اپنے افکار کی تبلیغ شروع کی تو اس پر اپنے ہی در وبام اجنبی بن کررہ گئے، اسے ترکِ وطن کر کے کبھی پیرس تو کبھی انگلینڈ کے تنگ و تاریخ علاقوں میں پناہ حاصل کرنا پڑی اور ساری انسانیت کا یہ غم خوار اپنے نوزائیدہ بچے کا علاج تک نہ کراسکا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کمزور سینے والا یہ شخص جسے فوج میں خدمت کے قابل نہیں سمجھا گیا ایک ایسے توانا دماغ کا مالک تھا جس نے محض مشاہدے کے بل پر اس جہان کو ایک ایسا متبادل نظام دیا جو کہ صدیوں کے ارتقاء سے گزرے دیگر عمرانی معاہدوں کے سامنے خم ٹھوک کر آکھڑ ا ہوا اور اس حد تک مقبول ہو ا کہ امریکا اور یورپ جنہیں اپنے سرمایہ دارانہ نظام پر ناز تھا انہیں اپنے نظام میں ایسی انقلابی تبدیلیاں کرنا پڑیں کہ فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور جنہیں پرولتاریہ کہا گیا، ایسے ایسے حقوق سے آج مستفید ہورہے ہیں جن کا کارل مارکس سے قبل کبھی تصور بھی نہیں کیا گیا تھا۔

کارل مارکس کا دکھ مشرق کے عظیم شاعر اور فلسفی جون ایلیاء نے سمجھا اور اپنی ایک نظم اعلانِ رنگ میں وہ کہتے ہیں کہ

تمام محرومیاں ہم آواز ہوگئی تھیں کہ ہم یہاں ہیں
ہمارے سینوں میں ہیں خراشیں ہمارے جسموں پہ دھجیاں ہیں
ہمیں مشینوں کا رزق ٹھہرا کے رزق چھینا گیا ہمارا
ہماری بخشش پہ پلنے والوں ہمارا حصہ تباہیاں ہیں

ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ مذہب اور معاشرے کے بڑے بڑے مجرموں کو معاف کیا گیا ہے، لیکن جس کارل مارکس نے ان کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا جن کے ہاتھوں میں سارے جہاں کی معیشت کی کنجیاں ہیں تو معاشرے کے تمام تر عناصر خم ٹھوک کر اس کے مدمقابل آگئے کہ تمام تر کارِجہاں آپس میں مربوط و منسلک ہیں اور سب کا منشا و محور یہی ہے کہ عام آدمی کی محنت کے بل پر زمانے بھر کی عیاشیاں کی جائیں۔ یہی طریقہ واردات تمام مذاہب کے مذہبی پیشواؤں نے اختیار کیا ہوا ہے، سیاست داں اور سرمایہ دار بھی اسی نہج پر چلتے ہوئے عام آدمی کے لہو سے اپنے محلات کی بنیادوں کی ترائی کرتے رہے ہیں۔

ہم کارل مارکس سے اختلاف کرسکتے ہیں، اس کے نظریات کی مخالفت کرسکتے ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ ہم تاریخ کے صفحے سے اسے حرفِ غلط کی طرح مٹا نہیں سکتے۔ عالمِ انسانیت کے غم میں مبتلا یہ عظیم بوڑھا عہد ِجدید کا سدھارت ہے جس نے برسوں تپسیا کرکے دکھی انسانیت کے غموں کا مداوا کرنے کے لیے ایک ایسا نظام وضع کیا ہے جس میں بے شک دوسرے نظاموں کی طرح کئی خامیاں بھی ہیں لیکن جب ہم موازنہ کرتے ہیں کہ کونسا نظام کاروبارِ دنیا پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوا ہے تو ہم خود کو یہ کہنے پر مجبور پاتے ہیں کہ آج کے جدید معاشروں میں اگر کوئی مزدور اپنے حقوق سے استفادہ کررہا ہے تو ان حقوق کے مطالبے کی سب سے توانا آواز کار ل مارکس کے کمزور سینے سے ابھری تھی۔

ہمارے درمیان موجود کچھ لوگ ہمیں بتاتے ہیں کہ کارل مارکس نے کوئی نئی بات نہیں کی بلکہ اس نظام کے خدوخال تو چودہ سو برس قبل پیغمبرِ اسلام ﷺ وضع کرچکے تھے جس میں غلاموں کے بھی بے انتہا حقوق تھے۔ ہم ان افراد کو بتانا چاہتے ہیں کہ جی ہاں! آپ کی بات بالکل درست ہے، واقعی اسلام ایک انقلاب کا نام ہے اور پیغمبرِ اسلامﷺ نے جن حقوق کی بات کی تھی، وہی حقوق کارل مارکس کے نظام نے سرمایہ دار سے چھین کر محنت کش طبقے کے ہاتھ میں دیے ہیں۔ بلکہ ٹھہریے! ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آج سے چودہ سو سال قبل سلمان فارسی ؓ نامی صحابی نے خلیفۂ وقت سے سوال کیا تھا کہ جب مدینے میں کسی کا مکان دو منزلہ نہیں تو آپ کا مکان کیسے ہوسکتا ہے؟

لیکن افسوس کہ تین بر اعظموں پر سینکڑوں سال تک حکومت کرنے والے پیغمبرِ اسلام کے ماننے والے ایک ایسا نظام وضع کرنے بری طرح ناکام رہے جس میں ایک محنت کش اپنی محنت کا بھرپور اجر حاصل کرے اور اس کے بچے کو بھوک سے بیماری سے دوا کی قلت سے موت کے منہ میں نہ جانا پڑے۔ اگر آپ اس تمام خطے پر جہاں جہاں مسلمانوں کی حکومت تھی، محمد عربی ﷺ کا دیا ہوا معاشی نظام نافذ کرنے میں کامیاب رہتے تو یقین مانئیے، تاریخ کا دھارا کسی اور رخ پر بہہ رہا ہوتا۔ وہ حقوق جو 1400 سال قبل اسلام نے وضع کیے تھے آپ انہیں عوام تک ڈیلیور کرنے میں ناکام رہے اور قرونِ وسطیٰ میں سرمایہ دارانہ نظام نے پوری آب وتاب کے ساتھ محنت کش کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا تھا۔ ایسے میں اگر مارکس کی متعین کی ہوئی راہ پر گامزن افراد بنی نو ع آدم کی بہتری کا خواب نہ صرف دیکھ رہے بلکہ اس پر سوشلزم، کمیونزم، لینن ازم اور ماؤ ازم کی شکل میں پیرا ہوکر دکھا رہے ہیں تو آپ کو تسلیم کرنا ہوگا کہ آپ اپنا نظام نافذ کرانے میں ناکام رہے اور اب دنیا میں سرمایہ دار اور مارکسزم کے درمیان مقابلہ ہے اور مقابلہ دور ِجدید کی بدلتی دنیا کے ساتھ سخت ترین ہوتا جارہا ہے۔ آج سرمایہ دار کارپوریٹ غلامی کے تصور کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور میدانِ حرب کی جنگوں کے بجائے معاشی جنگیں لڑنے کو ترجیح دے رہا ہے، ایسے میں اگر اس عفریت کے مدمقابل کوئی ہے تو وہ اصول ہیں جنہیں مارکس نے اپنے تعلیمات میں متعین کیا تھا اور جن پر عمل پیرا ہوکر دنیا کے کئی ممالک عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف صف آرا ہیں۔

انسانیت کا یہ محسن ہر دکھ درد میں ساتھ رہنے والی اپنی بیوی سے جدائی کے غم میں ایسا بیمار پڑا کہ 14 مارچ 1883 میں بے وطنی کے عالم میں اس جہاں سے گزر گیا، پانچ مئی1818 کو دنیا میں آنے والے اس شخص نے انسانی تاریخ پر جو اثرات مرتب کیے ہیں اس کا فیصلہ تو مورخ کرچکے ہیں، اب تو ہم جیسے لوگوں کو جہاں عوام آج بھی جینے کے حق سے محروم ہیں، یہ سوچنا ہے کہ وہ آخر کب تک کب تک ہم اس خونی سرمایہ دارانہ نظام سے مفاہمت کرتے رہیں گے جو ہماری نسلوں تک کو اپنا غلام بنائے رکھنے کی مکمل تیاری کرچکا ہے۔

نظامِ دولت کے پنجہ ہائے درشت وخونیں شروع ہی سے
فریب ِقانون و امن کی آڑ میں چھپے ہیں، چھپے رہیں گے
گروہِ محنت کشاں، ہو تیری زبان پر، اب بس ایک نعرہ
مفاہمت ختم ہوچکی ہے، مفاہمت ختم ہوچکی ہے
ستم گروں سے ستم کشوں کی معاملت ختم ہوچکی ہے

5 مئی 2018


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).