جون ایلیا سے ڈاکٹر عبدالکلام تک
دستخط شدہ بہت سی کتابیں جمع کرلی تھیں لیکن چند نام ایسے تھے جن کے آٹوگراف میرے پاس نہیں تھے۔ شاید صبر آجاتا لیکن دوستوں کے پاس ان کی کتابیں دیکھ کر طلب بڑھ گئی۔
میرے ایک دوست ہیں احمد حسین۔ مخلص اور بہت خوش اخلاق۔ ایک دن انھیں معلوم ہوا کہ میرا تعلق امروہے سے ہے تو انھوں نے بتایا کہ وہ جون ایلیا کے بیٹے کو ٹیوشن پڑھا چکے ہیں۔ جون ایلیا کی زندگی میں ان کا صرف ایک مجموعہ کلام ”شاید“ چھپا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ جون ایلیا نے وہ کتاب دستخط کرکے انھیں دی تھی۔ انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ وہ اپنے سابق طالب علم سے ملنا چاہتے ہیں۔ کیا میں زریون کا فون نمبر انھیں فراہم کرسکتا ہوں؟
میں نے اپنے دوست شاعر کامی شاہ کو فون کیا جو ایک بار بتاچکے تھے کہ زریون ایلیا ان کے دوست ہیں۔ کامی نے فورا زریون کا نمبر مجھے دے دیا جو میں نے احمد حسین کو بھیج دیا۔ کچھ دیر بعد احمد صاحب کی کال آئی کہ بھائی، یہ کس کا نمبر دے دیا؟ یہ زریون صاحب جون ایلیا کے بیٹے نہیں ہیں۔ میں نے کامی سے پوچھا تو انھوں نے کہا، جی ہاں، زریون ایلیا جون صاحب کے بیٹے نہیں بلکہ خود شاعر ہیں۔ میرا جون صاحب کے بیٹے سے کیا تعلق؟
خیر جناب، میں نے کہیں اور سے زریون کا نمبر تلاش کرکے احمد حسین کو دیا۔ یوں پچیس سال بعد استاد طالب علم کی ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد میں بھی ایک ملاقات میں شریک ہوا۔
چند ماہ بعد میری سالگرہ آئی تو احمد حسین نے مجھے ایک تحفہ دیا۔ میں نے ڈبا کھولا تو اس میں جون ایلیا کے دستخط والا مجموعہ کلام تھا۔ میں نے کہا کہ بھائی، یہ مجھے کیوں دے رہے ہیں؟ یہ آپ کے نام جون صاحب کا تحفہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسے میری طرف سے اپنی لائبریری میں وہیں رکھیے جہاں بڑے لوگوں کی کتابیں رکھی ہیں۔
میرے ایک اور دوست ہیں نسیم حیدر۔ یہ جیونیوز کے پروڈیوسر ہیں۔ ایک بار دبئی میں انھیں بینظیر بھٹو کے انٹرویو کی ذمے داری دی گئی۔ انھوں نے بتایا کہ بینظیر نے انٹرویو کے بعد انھیں اپنی کتاب دستخط کرکے پیش کی۔ یہ منع کرتے رہے کہ میں یہ کتاب پڑھ چکا ہوں، مجھے نہیں چاہیے۔
مجھے یہ سن کر جھٹکا لگا۔ بینظیر نے زبردستی انھیں اپنی کتاب تھمائی اور پتا نہیں انھوں نے اسے سنبھال کر رکھا یا نہیں۔
میں نے کئی بار سوچا کہ ان سے وہ کتاب مانگ لوں لیکن ہمت نہ ہوئی۔ اتفاق سے گزشتہ دنوں مجھے بینظیر کے دستخطوں والی قیمتی کتاب مل گئی۔
ایک بار عقیل عباس جعفری نے بتایا کہ انھیں غالبا کراچی کے ریگل بازار میں پرانی کتابوں کے کسی ٹھیلے سے سابق بھارتی صدر عبدالکلام کے دستخطوں والی کتاب ملی تھی۔ میں عقیل بھائی کے کتابوں کے ذخیرے، نوادرات، مطالعے، علم اور مرتبے کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ عبدالکلام کی کتاب ان کے ہاتھ لگنے کا واقعہ سن کر ان پر رشک آیا۔ مجھے بھی ریگل سے بہت سی نادر کتابیں ملی ہیں لیکن غیر ملکی رہنما کے آٹوگراف والی کتاب ملنا انوکھا واقعہ ہے۔
لیجیے، آج مجھے بھی ڈاکٹر عبدالکلام کے دستخط مل گئے۔ کم از کم ایک معاملے میں عقیل بھائی کے برابر آگیا۔
- بابائے امریکہ کو سلام - 04/07/2022
- آصف فرخی: انھیں تنہائی نے مار ڈالا - 03/06/2022
- امروہے کے ماموں اچھن - 19/12/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).