این جی اوز میں چراغ تلے اندھیرا


کل میرے پاس سوشل سیکٹر میں کام کرنے والی ایک لڑکی، جو میری جاننے والوں میں سے تھی، روتی ہوئی میرے پاس آئی، ”باجی وہ مجھے پڑھنے نہیں دے رہے اور نہ ہی پیپرز دینے کے لیے جانے دے رہے ہیں“۔

یہ سنتے ہی میرے اندر آگ لگ گئی اور میرے اندر سماج سدھار کی عورت جاگ گئی؛ انسانی حقوق کا عالمی منشور، (CEDAW) سیڈو، اور پاکستان کے آئین کے رو سے پاکستانی شہری کے حقوق کی تمام شقیں ایک فلم کی طرح دماغ کے پردے پر، ایک ایک کر کے چلنے لگیں اور اِس کے علاوہ ماضی قریب میں پاکستان کے سپریم ادارے (پارلیمنٹ) سے پاس ہونے والے تمام بل، آرٹیکل یاد آنے لگے تو میں نے اس لڑکی کو جھٹ سے کہا، کہ تم ان بلز، آرٹیکل کی رو سے جو تمھیں پڑھائی کے حق سے محروم کرے، کے خلاف درخواست دے کر قانونی چارہ جوئی کرسکتی ہو؛ خاص کر پائیدار ترقی کے اہداف (Sustainable Development Goals) اور 2011ء میں پاس ہونے والے بل (Anti women practices) خواتین کے خلاف فرسودہ رسم ورواج کا خاتمہ کہ جس کی رُو سے مجرم کو کم سے کم تین سال اور زیادہ سے زیادہ سات سال قید اور پانچ لاکھ جرمانے کی سزا ہے۔

لڑکی نے کہا، ”باجی اِس بل کے مطابق تو لڑکی کو اپنی مرضی سے شادی کا حق نہ دینا، وراثت میں حق نہ دینا، زبردستی کی شادی اور قرآن سے شادی شامل ہے۔ میں تو پڑھنے کی بات کر رہی ہوں“۔

میرا جواب تھا، ”پگلی فرسودہ رسم و رواج سے کیا مراد ہے؟ کسی بھی ایسے حق سے لڑکی یا عورت کو دُور کرنا کہ جو پاکستان کے آئین کے رو سے تمام شہریوں کو حاصل ہیں، اور پڑھائی تو ہمارا بنیادی حق ہے۔ اِس حق سے محروم کرنا بھی اِسی زمرے میں آتا ہے۔ اب تمھیں تین اطراف سے مدد مل رہی ہے، خواتین کے خلاف فرسودہ رسم و رواج کا خاتمہ، پائیدار ترقی کے اہداف اور پاکستان کے آئین کے رو سے بھی“۔
وہ بڑی معصومیت سے بولی، ”باجی کہہ تو آپ ٹھیک رہی ہیں لیکن میں کروں کیسے“؟

میں نے کہا، ”کیوں؟ یہ کون سا مشکل کام ہے؟ ایک سادہ سے کاغذ پر درخواست لکھ کر کسی قریبی تھانے یا عدالت میں دے دیتے ہیں اور وہ کارروائی کردیں گے۔ پھر کیا ہوگا! تمھارے گھر والوں کے خلاف کارروائی ہو جائے اور بس“۔
”باجی بات گھر والوں کی نہیں ہے“۔
”تو پھر“؟
اُس نے کہا، ”باجی میں جس ادارے (NGO ) میں کام کر رہی ہوں، وہاں کا باس مجھے چھٹی نہیں دے رہا“۔

مجھے یک دم سانپ سونگھ گیا، اور میری آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا؛ کیوں کہ وہ ایک نامی گرامی ادارے سے وابستہ تھی، جو انسانی حقوق اور خاص کر خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتا ہے۔

میں نے مدھم سا صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے اسے سمجھایا کہ آخر ادارے کی بھی تو پالیسی ہوگی؟ اور اس پالیسی کی رُو سے کسی بھی ورکر کو تعلیم کے حق سے نہیں روکا جاسکتا۔
کہا اس نے، ”باجی پالیسی تو ہے مگر“؟
”مگر کیا“؟

”باس کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کام کا ڈھیر ہے اور اگر تم نے چھٹیاں کیں، تو اپنے آپ کو ادارے سے فارغ سمجھنا۔ اور باجی آپ تو جانتی ہیں کہ میں اپنے گھر کی واحد کفیل ہوں، اگر میری جاب ختم ہو گئی تو پھر میں کیا کروں گی؟ پھر نہ تو بہن کے اسکول کی فیس ادا ہوسکے گی، اور نہ گھر والوں کی دال روٹی پوری ہوسکے گی۔ بس میں رو تو سکتی ہوں کر کچھ بھی نہیں سکتی۔ آپ کے پاس بس دل کا بوجھ ہلکا کرنے آئی تھی“۔

میں سوچ میں پڑ گئی کہ ہم جو اِنسانی حقوق کے علم بردار بنتے ہیں؛ ہر قسم کی قومی اور انسانی حقوق کی پالیسی پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، کہ اِس میں انسانی حقوق اور خاص کر خواتین کے حقوق کو مدِ نظر رکھ کے بنایا جائے اور نظریہِ ضرورت کے تحت اِسے بدلنے کے لیے صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں۔ کیا ہماری اپنی تنظیمی پالیسیوں پر نظرِثانی کی ضرورت نہیں ہے؟

کبھی کبھار اِس حوالہ سے میٹنگ ضروری نہیں کہ اسٹاف کو کیا مسائل ہیں؟
کیا ہماری بنائی گئی پالیسی اسٹاف کو فائدہ دے بھی رہی ہے یا نہیں؟
کہیں ایسا نہ ہو کہ چراغ تلے اندھیرا کے مصداق ہم صرف گفتار کے غازی بن کر رہ جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).