ڈاکٹر عبدالسلام اور ہمارا نظام تعلیم


ڈاکٹر عبدالسلام ایسا نام جس سے ساری دُنیا واقف ہے۔ جو ایک سچا پاکستانی اور بہترین سائنسدان تھا۔ جس کی خواہش تھی، پاکستانی یونیورسٹیوں میں سائنس کو فروغ حاصل ہو۔ اور پاکستانی طلبا سائنس کی دنیا میں کچھ نہ کچھ اپنا نام پیدا کر کے اس مادر وطن کا نام روشن کرسکیں۔ لیکن ہماری بد قسمتی کہ ہم نے اسے اپنا ماننے سے انکار کر دیا اور ہمیشہ کے لیے اس عظیم انسان کی خدمات سے محرومی اختیار کرلی گئی۔

بہت عرصے بعد جب ہوش آیا تو پتا چلا کہ یہ تو اپنا ہی بندہ تھا۔ اس کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کو اس کے نام سے منسوب کیا جائے، لیکن کچھ ہی دیر میں پھر کسی کو خیال آیا کہ یہ کیا کردیا تھا۔ اس فیصلے کو واپس لیا جائے اور شعبہ فزکس کو کوئی اور کے نام سے منسوب کردیا جائے۔ عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے کہ کسی کی محنت اور کام، نام کا محتاج نہیں ہوتا اور نا ہی اسے لولے لنگڑے لوگوں کی آشیر باد چاہیے ہوتی ہے۔ یہاں کوئی مانے یا نہ مانے لیکن فزکس کی دُنیا میں کام کرنے والے کبھی اس نام کو بھلا نہیں سکیں گے۔

اگر دیکھا جائے تو یہ اچھا ہی ہوا، ایک عظیم نام کو کس تعلیمی نظام سے جوڑنے کی کوشش کر رہے تھے، جو اس قابل ہی نہیں ہے کہ کسی خوبصورت ذہن کو جنم دے سکے۔ کیوں کہ ہمارا تعلیمی نظام اور تعلیمی نصاب ایسا ترتیب دیا گیا ہے جو کبھی بھی کسی تخلیق کا موجب نہیں بن سکتا ہے۔ تعلیمی نظام صرف نمبر اور فی صد کی دوڑ میں پیش پیش ہے؛ چاہے وہ پرائمری، ایلیمنٹری اور سیکنڈری سطح کی تعلیم ہو یا پھر یونیورسٹی سطح پہ دیا جانے والا تعلیمی معیار ہو۔

پرائمری سطح تک تعلیم کا مقصد تو بچے کو سوچنے سمجھنے اور اپنے تخلیقی ہارمونز کی بڑھوتری کا عمل ہونا چاہیے، لیکن اسے بھی صرف بے شمار کتابیں پڑھنے اور انھیں رٹا لگانے کی حد تک قائم رکھا ہوا ہے۔ اور اس میں نجی اور سرکاری دونوں کا احوال ایک جیسا ہے۔ جب کہ تعلیمی نصاب کی بات کی جائے تو اس کا دور دور تک پیداواری عمل سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہے۔ بس اتنا سا کام ہے، کہ تھیوری پڑھتے چلے جاو اور نمبر بڑھاتے چلے جاو۔ یونیورسٹی کو پیسے دو اور ڈگری لے کے چلتے بنو۔ شعبہ جات کے نام بدلنے سے تعلیمی تسلسل نہیں بدل جاتا اور نا ہی کوئی تبدیلی ممکن ہوتی ہے۔

حقیقی تبدیلی تبھی ممکن ہے اگر تعلیمی سلسلے کو تبدیل کیا جائے اور تعلیمی تسلسل میں تبدیلی کا مطلب نصاب تعلیم کو ایسا بنایا جائے جو تخلیقی اذہان کو جنم دے سکے، اور ان تخلیقی ذہنوں کو ہر مضمون کی لیبارٹری سے جوڑا جائے۔ جہاں طلبا عملی کام کا حصہ بن کے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکیں۔ اپنے مضمون کو صرف امتحان کی تیاری کے لیے ہی نہ یاد کریں بلکہ عملی طور پہ اسے جانیں اور نئی جدت و اختراع کا موجب بنیں۔ یہ عمل معاشرے میں غیر پیداوری تعلیم کے ذریعے پیدا کیے جانے والے خاموشی کے کلچر کو بھی ختم کرے گا۔ جب اس طرح کے تسلسل کو برقرار رکھا جائے گا تو پھر کئی نام پیدا ہونا شروع ہوجائیں گے، جو آگے چل کے دُنیا کو باور کرائیں گے کہ ہاں ہم پاکستانی ہیں اور کوئی ہمارا ثانی نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).