زلزلہ اور موت


اسے مسلسل اُلٹیاں ہورہی تھیں، وہ نہ کچھ کھا پا رہا تھا اور نا ہی کچھ پینے کے قابل تھا۔ دونوں ہاتھوں میں دو موٹی موٹی سوئیاں لگی ہوئی تھیں، جس سے کہ اسے غذائیت پہنچائی جارہی تھی۔ یہ دونوں سوئیاں اور ان سے لگی ہوئی پلاسٹک کی ٹیوبیں، اس کی زندگی کی ٹیوبیں تھیں، جب تک ان ٹیوبوں سے پانی اور نمکیات اس کے خون میں جارہے تھے، وہ زندہ تھا۔ اسے ایئرپورٹ سے اسی صورت میں لایا گیا تھا۔

ہوا یہ تھا کہ آٹھ اکتوبر کو جیو ٹی وی پر اس نے خبر سنی کہ پاکستان میں زلزلہ آگیا ہے۔ زلزلے تو دُنیا میں آتے ہی رہتے ہیں۔ کبھی زلزلہ، کبھی طوفان، کبھی بارش اور سیلاب کی تباہی اور کبھی یکایک لگ جانے والی آگ اور ہزاروں کروڑوں کا نقصان اور لاکھوں بے وقعتوں کی اموات۔ پاکستان میں زلزلہ آگیا تو ایسی کیا بڑی بات تھی؛ وہ خبر اس نے اسی طرح سے سنی اور بھول گیا۔ دوسرے دن شام کو اس نے بالا کوٹ، باغ اور مظفر آباد کی فلمیں دیکھیں؛ دھنسی ہوئی عمارتیں، بکھری ہوئی لاشیں، سسکتے ہوئے لوگ، پھر وہ یہ سب کچھ دیکھ کر گھر پر رُک نہیں سکا۔

اس کے سارے گھر والے تیس پینتیس سال پہلے کشمیر سے آکر بریڈ فورڈ میں آباد ہوگئے تھے۔ وہ تو بریڈ فورڈ ہی میں پیدا ہوا، مگر والدین کی وجہ سے اس کا رشتہ مظفرآباد سے ٹوٹ نہ سکا۔ ان کے گھروالوں نے کبھی بھی کشمیر کو نہیں چھوڑا۔ پچھلے سال ہی تو وہ مظفر آباد ہو کر آیا تھا؛ وہاں کی پتلی پتلی سڑکوں پر گھوما، مختلف ہوٹلوں میں چائے پی، دریا نیلم میں کشتی میں گھوما، مچھلیاں پکڑیں۔ سب نے پہاڑی کے اوپر کباب لگائے بنائے اور مزے سے کھائے اور سیر کی، وہ سب کچھ ختم ہوگیا تھا۔

گزشتہ اکتیس سالوں میں، وہ بارہ تیرہ دفعہ پاکستان اور کشمیر آیا تھا۔ اسے حیرت ہوئی کہ ان تمام گزرے برسوں میں نہ پاکستان بدلا تھا، نہ کشمیر بدلا۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد، مظفر آباد میں کچھ نئی بلڈنگیں، کچھ سڑکیں ضرور بنی تھیں، مگر جو بننا چاہیے وہ نہیں بنا تھا۔ نل کا اور بغیر بوتل کا پانی پہلے بھی منع تھا اور اب بھی منع ہے۔ ٹوائلٹ پہلے بھی اس قابل نہیں ہوئے تھے کہ وہاں جایا جاسکے وہ ابھی بھی اس قابل نہیں تھے۔ جب پاکستان بنا تھا تو کوئی سیوریج سسٹم نہیں تھا، پاکستان بنے ہوئے پچاس سال سے اوپر ہوگئے ہیں مگر سیوریج سسٹم آج بھی نہیں ہے۔

اسے حیرت ہوتی کہ انگلینڈ اور یورپ، دیکھتے دیکھتے کتنے بدل گئے ہیں۔ زمانے کے ساتھ ساتھ جہاں پراتنی عمارتیں، پرانے شہر، پرانے قصبے اسی طرح سے قائم ہیں، اسی طرح سے دل کش و حسین ہیں، جیسے چار سو، پانچ سو سال پہلے تھے۔ ساتھ ہی نئی چیزیں بن رہی تھیں۔ ایئرپورٹ، ریلوے اسٹیشن، بس اسٹینڈ، اسکول، کالج، یونیورسٹی، میوزیم، لائبریری ہر چیز بہتر سے بہتر ہوتی جارہی تھی۔ اسے یاد تھا جب وہ اپنے اسکول کے گروپ کے ساتھ فرانس، جرمنی اور اسپین کے دورے پر بذریعہ ٹرین گیا، تو گروپ انچارج ٹیچر آئزک کے پاس سب کے پاسپورٹ تھے اور آج پورے یورپ میں بغیر پاسپورٹ کے لوگ دندناتے پھرتے ہیں۔ بچوں نے دیوار برلن کے ساتھ تصویر کھنچوائی تھی، آج دیوار برلن کا کچھ پتا نہیں ہے۔

اسے سمجھ نہیں آتا کہ پنڈی سے ایبٹ آباد، ہزارہ، مظفرآباد جاتے ہوئے چھوٹے بڑے گھروں میں رہنے والے ہزاروں لاکھوں کروڑوں انسانوں کی قسمت ہی میں ساری پریشانیاں کیوں لکھی ہیں۔ کیوں ان کے بچے اسکول نہیں جاسکتے؟ کیوں ان کے گھروں میں روشنی نہیں ہے؟ کیوں ان کو پانی، کپڑا، غذا میسر نہیں ہے؟ وہ جب بھی جاتا، سوچتا رہتا۔ مظفرآباد پہنچ کر مختلف رشتے داروں کے ساتھ گھومتا پھرتا۔ خالائیں، پھوپیاں، ماموں، چاچاوں کی محبتوں کو لوٹتا رہتا اور یہ چھوٹی موٹی باتیں بھول جاتا۔ شاید یہاں یہ سب کچھ نارمل ہے۔ شاید ان لوگوں کی یہی قسمت ہے۔ شاید یہی یورپ اورایشیا کا فرق ہے اور شاید یہ ہمیشہ ہی ایسا رہے گا۔

وہ پھر واپس ہوتا؛ کبھی لاہور ایئرپورٹ سے لندن فلائٹ لی جاتی، تا کہ لاہور میں کچھ رشتے داروں سے ملاقاتیں ہوجاتیں، یا پھر سارا خاندان کراچی کے راستے چھوٹے چچا کے خاندان سے ملتا ہوا آتا۔

چھوٹے چچا کراچی میں طارق روڈ کے علاقے میں رہتے تھے۔ موٹر پارٹس کا کاروبار تھا ان کا۔ کھاتا پیتا خاندان اور بہت محبت والے تھے۔ ان کا مکان بہت کشادہ تھا؛ ہروقت مظفرآباد سے کوئی نہ کوئی مہمان وہاں آکر ٹھہرا ہوا ہوتا۔ کراچی اسے پسند تھا، مگر کراچی کا احوال تو مظفرآباد سے بھی گیا گزرا تھا۔ اسے لگتا کہ جیسے کراچی ہی کے ٹھیکیدار مظفرآباد میں بھی بلڈنگیں بناتے ہیں؛ وہی ٹیڑھی میڑھی عمارتیں، جہاں ایک منزل ہونا چاہیے وہاں چھہ منزلیں، جہاں کچھ نہیں چاہیے وہاں کمرا۔ جہاں کار پارکنگ کی جگہ تھی، وہاں پر دُکانیں۔ مظفرآباد کنکریٹ کا ایک چھوٹا جنگل اور کراچی کنکریٹ کا ایک بڑا بہت بڑا جنگل تھا۔

کراچی میں اب ایک مصیبت یہ ہوگئی کہ وہاں لوگ بڑی آسانی کے ساتھ قتل ہوجاتے ہیں۔ ہندووں نے اتنے مسلمان کشمیر میں نہیں مارے، جتنے مسلمان مسلمانوں نے کراچی میں مار دیے۔ اس سب کے باوجود اسے ہر سال دو سال بعد پاکستان کشمیر آنا جانا اچھا لگتا تھا۔

اس نے جلدی جلدی کشمیر کمیونٹی سے کچھ پونڈ جمع کیے اور کچھ دوستوں کے ساتھ پی آئی اے کا جہاز پکڑ کر اسلام آباد آیا۔ اسلام آباد میں ہی تایا زاد جو وہیں رہتے تھے، اسے لینے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ چار پانچ گھنٹے اسلام آباد میں رُک کر وہ لوگ مری کے راستے مظفرآباد کے لیے روانہ ہوگئے۔

اسے بتایا گیا کہ مظفرآباد میں زیادہ تر ان لوگوں کے خاندان تباہ و برباد ہوگئے ہیں۔ تایا تائی، چچا چچی، ان کے بچے، کچھ بھی تو نہیں رہا۔ اسے بتایا گیا کہ بچے تو اسکولوں کی عمارتوں تلے ہی دب کے مرگئے، صبح کا وقت، اسکول کا سمے، سب بچے بیٹھے تھے، کتابیں کھولی ہی تھیں، پنسل قلم دوات سب کے ساتھ اپنے اپنے استانیوں اوراستادوں کے ساتھ، یکایک کنکریٹ کے نیچے دب کر مرگئے۔ اسے جیسے جھرجھری سی آئی وہ تایازاد کا ہاتھ پکڑ کر رودیا۔ مظفر آباد سے بہت پہلے تایا زاد نے اسے وہ پہاڑ دکھایا، جو پورا کا پورا اُدھڑ کر دریائے نیلم میں گرگیا تھا اور پانی کا راستہ بند ہوگیا تھا۔ بعد میں فوج نے بارود سے کارروائی کرکے وادی کو آنے والے سیلاب سے بچایا تھا۔ مگر مظفرآباد میں داخلہ وہ نہیں بھول سکتا تھا۔

اُجڑے ہوئے گھر، اُجڑی ہوئی دُکان، بلڈنگ نہیں تھیں ملبے کا ڈھیر تھا۔ گاڑیاں سڑک کے کنارے کھڑی اور ان پر گھروں کا ملبا گرا ہوا تھا۔ ٹوٹے ہوئے روڈ، ٹوٹی ہوئی عمارتیں۔ تایا کا گھر شہر کے بیچ میں تھا، کمبائنڈ ملٹری ہاسپیٹل کے پیچھے، مارکیٹ کے بالکل سامنے۔ وہاں سے پہلے ہی گاڑی سے اُترنا پڑا۔ گاڑی سے اُترتے ہی بدبو کا ایک بھبکا آیا تھا۔ ملبے کے نیچے انسان، جانور، مرد، عورتیں، بچے، بلی، کتا سب آہستہ آہستہ سڑرہے تھے۔ انھیں نکالا نہیں جاسکا تھا لیکن ان کے جسموں سے اُٹھنے والا تعفن گیس کے چھوٹے چھوٹے بگولے، رِس رِس کر باہر آرہے تھے۔ اسے عجیب سا لگا اس کے تایا زاد نے اسے ماسک دیا جو اس نے لے تو لیا مگر اسے اپنے منہ پر ناک پر باندھ نہیں سکا۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2