کوئٹہ: کوئلے کی کانوں میں حادثات 16 کان کن ہلاک
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع کوئٹہ کے دو مختلف علاقوں میں کوئلے کی کانوں میں پیش آنے والے حادثات کے باعث کم ازکم 16 کان کن ہلاک اور نو سے زائد زخمی ہوگئے۔
ان کانوں میں چار کان کن پھنسے ہوئے ہیں جن کو نکالنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
یہ واقعات کوئٹہ شہر کے مشرق میں مارواڑ اور اسپن کاریز کے قریب کے علاقوں میں پیش آئے۔
کوئٹہ سے اندازاً 45 کلومیٹر کے فاصلے پر مارواڑ کے علاقے میں تین کانوں میں 24 سے زائد کان کن کام کررہے تھے۔
محکمہ داخلہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ایک کان میں زور دار دھماکے کے باعث تینوں کانوں میں کام کرنے والے تمام کان کن پھنس گئے۔
حکام نے ابتدائی تحقیق کے حوالے سے بتایا کہ دھماکہ کان میں گیس بھر جانے کی وجہ سے ہوا۔
مارواڑ میں پھنسے ہوئے کان کنوں میں سے 9 کے قریب زیادہ گہرائی میں نہیں تھے جس کے باعث وہ زخمی ہوئے۔
ان زخمیوں کو نکالنے کے بعد علاج کے لیے سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کیا گیا۔
ڈپٹی کمشنر فرح عتیق جو کہ خود بھی ریسکیو کے عمل کی نگرانی کے لیے مارواڑ کے علاقے میں تھے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ مارواڑ میں کوئلہ کی کانوں میں حادثے میں ہلاک ہونے والے کان کنوں میں سے اب تک 12کی لاشیں نکالی گئی ہیں۔ جبکہ چار پھنسے ہوئے کان کنوں کو نکالنے کی کوششیں جاری ہیں۔
تاہم بعض دیگر ذرائع کے مطابق پھنسے ہوئے ان چار کان کنوں کے بچنے کے امکانات زیادہ نہیں۔
ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ ایک اور حادثہ اسپن کاریز کے قریب ایک اور کان میں پیش آیا۔
ان کا کہنا تھا اس علاقے میں کان میں حادثے کے باعث اب تک چار کان کنوں کی لاشیں نکالی جاچکی ہیں۔
پاکستان سینڑل مائنز لیبر فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل لالا سلطان نے بی بی سی کو بتایا کہ دونوں مقامات پر ہلاک ہونے والے کان کنوں کی تعداد 20 ہے۔
سول ہسپتال میں ایک زخمی کان کن نے بتایا کہ ہلاک اور زخمی ہونے والے کان کنوں میں سے زیادہ تر کا تعلق خیبر پختونخوا کے علاقوں شانگلہ اور سوات سے ہے۔
گذشتہ ماہ بھی سوراب اور دکی کے علاقوں میں کوئلہ کانوں میں پیش آنے والے حادثات کے باعث 8سے زائد کانکن ہلاک ہوئے تھے۔
دیگر صنعتیں بلوچستان میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جس کے باعث کوئلے کی کان کنی یہاں کی سب سے بڑی صنعت ہے۔
کوئلے کی کانیں بلوچستان میں زیادہ تر کوئٹہ، ہرنائی ،دکی اور کچھی کے اضلاع میں ہیں۔
ان کانوں میں 60 ہزار سے زائد کان کن کام کرتے ہیں لیکن کانوں میں جدید حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے باعث ان میں حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔
لالہ سلطان نے بتایا کہ کوئلے کی کانوں میں ٹھیکیداری کے نظام کی وجہ سے سیفٹی کے انتظامات نہیں کیے جاتے جس کے باعث بلوچستان میں ان کانوں میں حادثات ایک معمول بن گئے ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ 2010 سے لے کر اب تک بلوچستان میں کوئلہ کانوں میں پیش آنے والے واقعات میں 200سے زائد کان کن ہلاک ہوئے۔
لالہ سلطان نے بلوچستان ہائی کورٹ سے کان کنوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے ازخود نوٹس لینے کی اپیل کی۔
- خاتون فُٹ بال شائق کو گلے لگانے پر ایرانی گول کیپر پر 30 کروڑ تومان جُرمانہ عائد: ’یہ تاریخ میں گلے ملنے کا سب سے مہنگا واقعہ ثابت ہوا‘ - 24/04/2024
- ’مغوی‘ سعودی خاتون کراچی سے بازیاب، لوئر دیر سے تعلق رکھنے والا مبینہ ’اغوا کار‘ بھی زیرِ حراست: اسلام آباد پولیس - 24/04/2024
- جنوبی کوریا کے ’پہلے اور سب سے بڑے‘ سیکس فیسٹیول کی منسوخی: ’یہ میلہ خواتین کے لیے نہیں کیونکہ ٹکٹ خریدنے والے زیادہ تر مرد ہیں‘ - 24/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).