پہاڑوں کے درمیاں


پہاڑوں کا سفر ہو، رات کا وقت ہو، سنسان راستہ ہو اور منزل نا معلوم ہو۔ ایسے میں دور کہیں کسی چھوٹے سے ہوٹل کی روشنیاں نظر آ جائیں تو فلمی ساسین بن جاتا ہے۔ جب ہم لاہور سے نکلے تھے تو منزل معلوم تھی، ارادہ تھا کہ اسلام آباد سے ہوتے ہوئے سر شام نتھیا گلی پہنچیں گے اور وہاں ڈاک بنگلے میں رات بسر کریں گے۔ محکمہ ڈاک نے اب اپنے ’بنگلے‘ کرائے پر دینے شروع کر دیے ہیں، مختلف شہروں میں یہ ریسٹ ہاؤس موجود ہیں، آپ نہایت کم داموں میں ان جگہوں پر قیام کر سکتے ہیں۔

ڈاک والوں نے سہولیات کے اعتبار سے ان کی درجہ بندی بھی کر رکھی ہے، اے، بی اور سی۔ نتھیا گلی والا اے کلاس تھا سو ہم نے سوچا کہ دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ’من دیدن تو شنیدن‘ (فارسی کا کوئی جملہ اگر مضمون میں اٹکا دیا جائے تو تحریر رعب دار ہو جاتی ہے چاہے جملہ بے معنی و بے محل ہی کیوں نہ ہو) ۔ لاہور سے نکلتے نکلتے دوپہر ہو گئی اور اسلام آباد پہنچے پہنچتے پہنچتے شام۔ وہاں ایک چھوٹا سا کام نمٹایا اور پھر حسب روایت ایک ’ایگزٹ‘ غلط لے لیا جس سے مزید ڈیڑھ گھنٹہ ضائع ہو گیا۔

راستہ بھٹکنے کی عادت ہماری کافی پرانی ہے اور اب ہم اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اگر کبھی صحیح راستے کے ذریعے بروقت منزل پر پہنچ جائیں تو ہمراہی باقاعدہ ہمیں مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ مری سے نتھیا گلی کا سفر اگر دن میں ہو تو چاروں طرف پھیلے صنوبر کے درخت اور ان پر تیرتے ہوئے بادل ایک عجب سماں باندھ دیتے ہیں، یہ پورا راستہ رومان انگیز بھی ہے اور پر رونق بھی۔ رات کے وقت البتہ ماحول یکسر بدل جاتا ہے اور یہی راستہ کہیں سنسان اور کہیں بالکل ویران ہو جاتا ہے۔

بس کچھ کچھ دیر بعد ایک آدھ گاڑی پاس سے گزر جاتی ہے۔ لیکن جونہی کوئی گلیات کا کوئی مقام آتا ہے وہاں یک دم روشنیاں جگمگا اٹھتی ہیں۔ ڈونگا گلی اور نتھیا گلی جیسی جگہیں اب وہ نہیں رہیں جو آج سے آٹھ دس سال قبل ہوا کرتی تھیں، اب یہاں کھانے پینے کے کئی ’برینڈز‘ آ چکے ہیں جو پہلے صرف لاہور، اسلام آباد میں ملتے تھے۔ ہوٹلوں کا معیار بھی بہتر ہو گیا ہے، ان جگہوں پر ’شہری مسافروں‘ (urban travellers) کی آسائش کو مد نظر رکھ کر ہوٹل کھولے گئے ہیں جو مہنگے ہونے کے باوجود کامیاب ہیں۔ اسی لیے رات کو جب ویران پہاڑی راستوں سے ہوتے ہوئے ہم ڈونگا گلی سے گزرے تو ایسے لگا جیسے جنگل میں منگل کا سماں ہو، وہاں جدید کیفے اور ریستورانوں میں زندگی رواں دواں تھی۔

نتھیا گلی کے ڈاک بنگلے میں پہنچ کر البتہ ہمیں خاصی مایوسی ہوئی۔ وہاں کا تو عملہ تو بہت مستعد اور خوش اخلاق تھا مگر انہیں خوش اخلاقی کے دس بٹا دس نمبر دینے کے باوجود ہم کمرے کو دس میں سے دو نمبر بھی نہ دے سکے۔ سمجھ نہیں آئی کہ محکمہ ڈاک کے کس بقراط نے اس ریسٹ ہاؤس کو درجہ اول میں رکھا ہے، اگر یہ درجہ اول ہے تو درجہ سوم نہ جانے کیا ہو گا!

ہم نے ڈاک بنگلے میں قیام کا ارادہ ترک کیا اور نتھیا گلی کے پر رونق بازار سے کابلی پلاؤ اور مغز مصالحہ کھانے کے بعد فیصلہ کیا کہ رات کسی اچھے سے ہوٹل میں گزاری جائے۔ نتھیا گلی کا جو ہوٹل ہمیں پسند آیا اس میں جگہ نہیں تھی سو ہم نے گاڑی واپس مری کی طرف موڑ دی۔ نتھیا گلی کی روشنیاں ختم ہوتے ہی راستہ پھر سے ویران ہو گیا۔ چند کلومیٹر تک ایسے ہی رہا اور پھر دور ہمیں ایک چھوٹے سے ہوٹل کی روشنیاں نظر آئیں۔

اس کے ارد گرد ویرانہ تھا۔ میں نے گاڑی ہوٹل کے باہر کھڑی کی، استقبالیے پر ایک ادھیڑ عمر کا شخص بیٹھا تھا، میں نے پوچھا کہ آج رات کے لیے کمرہ ملے گا۔ اس نے مسکرا کر جواب دیا ’بالکل ملے گا، سر۔ ‘ میں نے بھی جواباً خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ پھر جلدی سے ایک کمرہ عنایت کر دیں اور ساتھ ہی سگریٹ سلگا لیا۔ مجھے سگریٹ پیتے دیکھ کر اس بکنگ کلرک کے چہرے کا رنگ یک دم بدل گیا اور اس نے فوراً ً مجھے منع کرتے ہوئے کہا کہ سر پورا ہوٹل ’نو سموکنگ‘ ہے، آپ یہاں سگریٹ نہیں پی سکتے۔

اس کا یہ کہنا تھا کہ مجھے فلم ’ڈرنا منع ہے‘ کا ایک سین یاد آ گیا جس میں سیف علی خان ایک طویل سفر کے بعد ایسے ہی ایک ویران سے ہوٹل میں ٹھہرتا ہے جہاں بکنگ کلرک اسے سگریٹ نوشی سے منع کرتے ہوئے جان سے مار دینے تک کی دھمکی دے ڈالتا ہے۔ میں نے فوراً سگریٹ بجھایا اور بکنگ کلرک سے معذرت کر کے ہوٹل سے نکل آیا۔ اس کے بعد ہم نے مری جا کر ہی دم لیا۔

اگلے روز ہمارا ارادہ ایوبیہ نیشنل پارک دیکھنے کا تھا، اسی ارادے کے تحت جب ایوبیہ پہنچے تو ایک مرد مقامی نے بتایا کہ پارک تک جانے کے لیے گاڑی نیچے اڈے پر کھڑی کر کے چار کلومیٹر پیدل چلنا ہو گا۔ ہمیں سیاحت کا شوق ضرور ہے مگر بقول محبی سبوخ سید ’ایسی الف لیلوی سیاحت جس میں ہم ایک بٹن دبائیں اور من پسند مقام پر پہنچ جائیں‘ ۔ نیشنل پارک جانے کی بجائے ہم نے گاڑی ایوبیہ کے پی ٹی ڈی سی موٹل کی طرف موڑ دی، یہ موٹل ایک طرح سے پہاڑ کے دامن میں واقع ہے مگر افسوس کہ یہ اب بند ہو چکا ہے۔

مقامی لوگوں نے بتایا کہ دو سال سے پی ٹی ڈی سی کے تمام ہوٹل اسی طرح بند پڑے ہیں، پانچ سو ملازمین میں سے ساڑھے چار سو ملازمین کو فارغ کر دیا گیا ہے، منصوبہ یہ تھا کہ ان ہوٹلوں کو صوبوں کے سپرد کر کے نجی کمپنیوں کو لیز پر دے دیا جائے مگر یہ کام اب تک نہیں ہوا۔ پورے پاکستان میں پی ٹی ڈی سی کے موٹل بہترین مقامات پر واقع ہیں مگر سب کو تالے لگ چکے ہیں، عمارتیں بوسیدہ ہو چکی ہیں اور سامان کو دیمک چاٹ رہی ہے۔

اربوں روپے کی مالیت کی یہ جگہیں اس وقت بیکار پڑی ہیں اور ان کے ارد گرد واقع ہوٹلوں کا کاروبار چمک رہا ہے۔ نجی کمپنیوں کو لیز پر دینے کا عمل پیچیدہ اور طویل ہوتا ہے، کیا ہی اچھا ہوتا اگر ان ہوٹلوں کو بند کرنے کی بجائے اس وقت تک فعال رکھا جاتا جب تک لیز کا عمل مکمل نہ ہو جاتا۔ اسی طرح مختلف صوبائی محکموں کے سرکاری ریسٹ ہاؤس بھی اب عوام کے لیے دستیاب ہیں مگر ان میں سے جو بہتر ہیں ان کے دام اتنے ہیں جتنے میں اسی جگہ بہتر ہوٹل مل جاتا ہے یا پھر وہ کسی مقامی افسر کے زیر استعمال ہیں۔ سستے ریسٹ ہاؤس میں صرف رات گزارنے کا ایڈونچر کیا جا سکتا ہے۔ کوویڈ کے بعد سے چونکہ بیرون ملک سفر مشکل ہو گیا ہے اس لیے مقامی سیاحت میں تیزی آئی ہے۔ ایسے میں

پی ٹی ڈی سی کا محکمہ ملک میں سیاحت کے فروغ کے لیے بے پناہ کام کر سکتا تھا مگر وہ الٹا اپنے تمام ہوٹلوں کو قفل لگانے کے بعد اب محض ایک ویب سائٹ کے ذریعے سیاحت کی تبلیغ کر رہا ہے۔

مری سے ہمارا رومانس بچپن کے عشق کی طرح ہے، جس سے شادی اگر نہ بھی ہو تو پیار ختم نہیں ہوتا۔ حال ہی میں عمر مختار خان کی کتاب Once upon a time in Murree نظر سے گزری تو اندازہ ہوا کہ مری سے عشق خواہ مخواہ نہیں، یہ شہر تو اپنے اندر تاریخ کا ایک خزانہ لیے ہوئے ہے، ہم نے تو کبھی اس شہر کو یوں نہیں دیکھا جیسا عمر مختار نے ہمیں اس کتاب میں دکھایا ہے۔ عمر مختار ایک سمارٹ سرکاری ملازم ہیں اور پاکستان کے سیاحتی مقامات پر ان کی تحریریں اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں، یہ کتاب انہوں نے خصوصی چاہت سے لکھی ہے، صاف لگتا ہے کہ مری سے ان کا عشق بھی خاصا پرانا ہے۔ اس کتاب کے مطابق مری کی تفصیلی سیر کرنے کے لیے کم از کم ایک ماہ چاہیے جو ہمارے پاس نہیں تھا سو ہم مری کو الوداع کہہ کر لاہور واپس آ رہے ہیں کہ لاہور ہی ہماری اصل محبوبہ ہے۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments