ایک پنجابی، بلوچ کو خدا حافظ کہتا ہے


میرے بلوچ بھائی، اسلام علیکم:

تم نہیں جانتے، مگر بلوچستان سے میرا رشتہ، میری پیدائش سے بھی پہلے کا ہے۔ میری والدہ، محترمہ نسیم اختر بتایا کرتی تھیں کہ انکے بڑے بھائی، میرے مرحوم ماموں، محترم مقبول احمد بٹ صاحب کوئٹہ میں ریلوے کی جانب سے گارڈ بھرتی ہو کر وہاں شاید انیس سو پچاس کی دہائی کے آخر یا انیس سو ساٹھ کی دہائی کے بالکل شروع میں، متعین ہوئے تھے۔

وہ وہاں گئے تو کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے اپنے گھر والوں، یعنی میرے ننھیال کو بھی وہاں گھومنے پھرنے کے لیے بلایا، میری والدہ بھی ہمراہ تھیں۔ میری والدہ کی شادی، گکھڑمنڈی، ضلع گوجرانوالہ سے ملکوال، حالیہ ضلع منڈی بہاؤالدین میں 1970 میں ہوئی۔ مجھ سے بڑا اک بھائی پیدا ہوا، اور فوت ہو گیا۔ امی بتاتی ہیں کہ اس کا نام رضوان رکھا تھا اوروہ اک ہفتہ کی عمر میں ہی چل بسا۔ اک بڑے بھائی کا خلا، نجانے کہاں کہاں محسوس نہیں کیا ہو گا میں نے۔

خیر، میں بہت چھوٹا تھا تو امی مجھے رات کو سلاتے وقت نبی پیغمبروں کے قصوں کے ساتھ ساتھ، لوری اور اپنے “کوٹے” کے ٹور کے بارے میں بھی بتایا کرتی تھیں۔ مجھے یاد نہیں کہ وہ وہاں اک بار گئیں یا کتنی بار گئی تھیں، مگر ان کے بتائے ہوئے نام، جو انہوں نے میرے بچپن میں مجھے سنائے، میرے کانوں میں اک لمبا عرصہ گونجتے رہے۔

آبِ گم، کان مہتر زئی، ژوب، زیارت، تافتان، سبی، کوہِ مردار، قندہاری بازار، جناح روڈ، برف کے گالے، “اگ پوجن آلیاں دا مالہ” اور خشک میوہ جات وغیرہ۔ اپنے اولین سالوں سے لے کر، تقریبا کوئی تیس برس، یا شاید اس سے بھی اک آدھ  برس زیادہ لگ گئے مجھے وہ علاقے دیکھنے میں جو میری والدہ، شاید ساٹھ سال قبل دیکھ کر آئی تھیں، اور “کوٹے” کے بارے میں جب بھی بات کی، بہت محبت، ارمان، چاہت اور اک ٹھنڈی آہ کے ساتھ کی، کہ دوبارہ نہ جانا ہوا۔

میں جب، شاید 2002 تھا یا 2003 تھا، پہلی مرتبہ کوئٹہ گیا تو میں نے امی کو وہاں سے فون کیا تھا، اور ہم نے تھوڑی بہت گپ بھی لگائی۔ انہوں نے تب بھی شہر کے بارے میں پوچھا اور اپنے مدہم پڑتی ہوئی یادوں سے پرانے شہر کانقشہ میرے سامنے پیش کیا، تو میں نے تھوڑے اختلاف کے بعد، ان دل رکھنے کے لیے کہہ دیا کہ یہ بہت سرسبز، عمدہ اور ویسے ہی منظم شہر ہے جیسا آپ نے کسی زمانے میں دیکھا تھا۔ سچ مگر، میرے بلوچ بھائی، یہ ہے کہ شہر تو کچھ زیادہ نہ بھایا تھا، مگر شہر کے لوگ، اک رومان جو بہت بچپن سے ہی دل میں تھا اور پھر چلتے پھرتے محنت کرنے والے، چھوٹی محدود زندگیاں گزارنے والے لوگ اپنا ہی اثر ڈالتے چلے گئے۔

بعد میں بلوچستان اور وہاں بسنے والے لوگوں سے ایسے محبت میں گرفتاری ہوئی کہ جہاں جہاں موقع ملا، جہاں جہاں کہہ سکا، اپنے تئیں ان کی وکالت کی اور ایک ہی شہر میں اپنی زندگی گزار دینے والے پاکستانیوں کی اکثریت کے سامنے یہی کہا کہ جاؤ، گھومو پھرو، ملو جلو، جانو پہچانو، گھلو ملو، اپنے خیال کو علم مت سمجھو، اپنے اندازے کو معلومات نہ کہو اور اپنے تعصب کو اپنی عینک نہ بناؤ۔

اپنے جاننے والوں کو لاندی، شنئے سے جڑی ان کی طاقت کی حیرت انگیز تاثیر کے بلوچی لطائف بھی سنائے، روش زندگی میں پہلی بار کوئٹہ کھایا۔ اب ہر جگہ ملتی ہے، سجی، کھڈا دنبہ کے بارے میں بتایا، پھر، بالخصوص، اپنے پنجابی دوستوں کو یہ بھی بتایا کہ گوشت، مرچوں کے بغیر بھی بن سکتا ہے۔ کوئی یقین نہیں کرتا تھا۔

اونٹ کی کھالوں کے فن پارے، بلوچی کڑھائی کے نمونے، دیگر مختلف دستکاریوں کی وال ہینگنگز، لکڑی کے مشقتی کام کے استادی نمونے اور بھی بہت کچھ تھا جو خود میرے لیے اک خوبصورت اور جادوئی حیرت لیے ہوئے تھا۔ میں بلوچستان کی محبت میں گرفتار ہو گیا، میرے بلوچ بھائی۔

زندگی کے جھمیلوں میں وہاں سے کئی پشتون دوست بھی بنے تو مسکرایا کرتا تھا کہ، بلوچوں کے بارے میں انکی عینکیں، میرے پنجابی دوستوں سے بھی زیادہ گہرے رنگوں کی تھیں۔ وہ چِڑ جاتے تھے، اور میں جان بوجھ کر انہیں چِڑایا بھی کرتا تھا کہ جب انہیں بلوچ حوالہ جات سے بلاتا تھا۔

2006 میں اکبر بگٹی صاحب کی شہادت، گو کہ صاحب کوئی بہت عظیم رہنما نہ تھے، مگر پرانے زخموں کو اک نئی کریدن دے گئی۔ اپنی استطاعت، اوقات اور بساط کے مطابق اس پر اور بعد میں ہزارہ پر ہونے والے مظالم کے حوالے سے بھی تھوڑا بہت ٹِین پیٹا، اور خود کو ہمیشہ گفتگو اور مکالمہ کے لیے تیار رکھا، پیش کیا اور حاضر رہا۔

مگر مجھے کہنا ہے میرے بلوچ بھائی، کہ میں بحثیت اک پنجابی-پاکستانی، تقریبا ہمیشہ ہی تمھاری اور دوسری قوموں کی نفرت کا نشانہ بنا۔ مجھے اپنے بارے میں لطائف کا علم ہوا، خیر تھی۔ اپنے بارے میں تعصبات کا علم ہوا، اسکی بھی خیر ہی تھی۔ اپنی قومی شناخت کے گویا کمتر ہونے کا بتایا گیا، اس کی بھی تھوڑی بہت خیر ہی سمجھی۔

پھر میرا شناختی کارڈ، میرا دشمن بن گیا اور سینکڑوں نہیں، ہزاروں پنجابیوں کو وہاں سے کبھی دھکے دے کر، اور کبھی کفن دے کر روانہ بلوچستان-نکالا دینے کا اک سلسلہ شروع ہوا، جو ابھی بھی جاری ہے۔ میں تو آج چھیالیس برس کی عمر میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پشتون ہونا کون سی نسلی فخر کی بات ہے، کہ جیسے کوئی پشتون، اللہ میاں سے سودے بازی کر کے اک پشتون ماں کے رحم سے پیدا ہوتا ہے۔ میں یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ بلوچ، سندھی، پنجابی، مہاجر، کشمیری، گلگتی وغیرہ پیدا ہو جانے میں انسان کا اپنا فخر کیا ہے؟ مجھے تو نسل پرستی کی سمجھ نہ پہلے آتی تھی، نہ اب آتی ہے، نہ آئندہ آئے گی۔

زخم، پہلے بھی بہت لگے ہیں، مگر خاران میں تمھارے دوستوں نے چھ مزدور قتل کر ڈالے جن کا تعلق اس علاقے سے تھا جہاں تمھارے جدامجد، میر چاکر رند کی قبر موجود ہے۔ ان کے قتل پر مجھے بہت پڑھے لکھے پشتونوں، بلوچوں، سرائیکیوں اور خود ترحمی کے مارے، فائیو سٹار سوشلسٹ ٹائپ کے پنجابیوں کی تاویلات سننے اور پڑھنے کو ملیں۔ طاقت کے کھیل میں مجھ جیسے غریب گھروں کے بچے ہی کھیت رہتے ہیں، چھ اور کھیت رہے، اور ابھی اور بھی ہونگے، مگر انسانی قتل پر اک دبی دبی سی خوشی کی کیفیت جو پڑھے لکھے لوگوں کی جانب سے دیکھنے کو ملی، اس نے اس زخم کی کاٹ اور گھاؤ کی گہرائی بہت گہری کر دی۔

تم جانتے ہی نہیں کہ نسل پرستی اس قدر فضول اور بےفائدہ مشق ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا پشتون شہر، کراچی، سندھ میں ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا بلوچ شہر، ڈیرہ غازیخان، پنجاب میں ہے۔ کیا سندھی اور پنجابی بھی انہی تاویلات کا شکار ہو جائیں، جن کا سامنا وہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یاد رہے میرے بلوچ بھائی، کہ تمھارے لوگوں نے سندھیوں اور سرائیکیوں کو بھی نہیں بخشا، اور اس بےسمت خونریزی پر نہ صرف آوازیں سننے کو نہیں ملتیں، اک دبی دبی سی گویا جوابی انتقام کی خواہش لیے ہوئی خوشی کا احساس ہوتا ہے۔

میرا مضمون طویل ہو گیا، معافی چاہتا ہوں میرے بلوچ بھائی، جلدی سے بات ختم کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ میں آج تجھے، اپنے اس ورثہ سے خدا حافظ کہتا ہوں کہ جس کی پہلی پہل یاد، میرے کانوں میں میری ماں کی آواز تھی۔ میں تجھے آج یہ بتاتا ہوں کہ مجھے تیرے نسلی، گروہی اور سیاسی معاملات سے کچھ لینا دینا نہیں۔ میں آج یہ بھی کہتا ہوں کہ میں اب خاموش رہوں گا۔

مجھے جاننے اور پڑھنے والے دو چار ہیں، ان کے سامنے بھی خاموش رہوں گا۔ میں تیری طرح، پہلے ہی اپنی زندگی میں مگن، محنتی شخص ہوں، مگر دل سے تیری محنت اور یاد کا اک تعلق ہمیشہ لگائے رکھا۔ یہ لے کہ آج مگر، میں خود کو اس تعلق سے آزاد کرتا ہوں۔ دنیا میں میرے لیے اتنے ہی غم اور معاملات ہیں، کہ جتنے تیرے لیے ہیں، تو میرے بھائی، اب میں اپنی ہی نبیڑوں گا۔ تیرے ساتھ کیا ہوتا ہے، کیا بنتا ہے، کیا چلتا ہے، تو ہی بہتر جانتا ہے کہ کیا کرنا ہے۔

خدا تجھے اپنے حفظ، امان، سلامتی اور خوشی میں رکھے، میرے بلوچ بھائی۔ میری ماں مجھے “کوٹے” کے بارے میں بتا گئی۔ میں اپنے بچوں کو “کوٹے” کے بارے میں نہیں بتاؤں گا۔

آج، تیرا اک پنجابی بھائی، تجھے خدا حافظ کہتا ہے۔

مخلص،

مبشر اکرم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).