قوم لوط اور معصوم بچے


میرا پھول میرا شہزادہ کملا گیا تھا۔ وجہ سمجھ میں نہ آتی تھی اس کا ہنسنا کھیلنا موقوف ہو گیا تھا۔ ہر وقت روتا بسورتا۔ بھی کچھ دن پہلے تک وہ کھلے ہوئے گلاب کی مانند کبھی ایک اور کبھی دوسرے کے ہاتھوں میں ہمکتا تھا۔ پسے ہوئے آلو، کھیر، کیلا شوق سے کھاتا فیڈر پی کر سو جانا۔ اس کی روٹین تھی۔ مگر یہ ظالم درد کیسا تھا۔ کہا ں تھاکچھ سمجھ نہ آتا تھا۔ کبھی پیٹ کو دباتی کبھی کان کو، کبھی ہاتھوں کو سہلاتی سر کو چھوتی اور تلووؤں کو سہلاتی تھی۔ پچکاتی جاتی۔

میرا منا میری جان بتا تو سہی کیا ما نگتا ہے کیاچاہیے مگر پھول تھا کہ پیلا ہی ہوتا چلا جاتا تھا۔ اس کا سرخ چہرا زرد رنگ میں بدل گیا تھا۔ ہائے ری ماں تو کس مٹی سے بنی ہے۔ تجھے رب نے کیسے گوندھا کہ اس میں تڑپ ملا دی تھی جو کسی اور کو محسوس ہی نہ ہوتی۔ گھر کی فضاء کی پراسراریت اور خوف میں اضافہ ہو چلا تھا۔ میاں سے پھول کی طبیعت کا کہا تو بولا کہ تو وہم کرتی ہے۔ یہ بڑھ رہا ہے۔ ہائے سال کے بچے کی ہڈیاں اتنا بڑھنے لگیں۔ کہ اسے تکلیف دینے لگیں کیا قد ایسے بڑھتے ہیں۔ کہ چھوٹے معصوم بچے بلکتے رہتے ہیں۔ بات شاید نہ کھلتی اور یہ پھول شاید مکمل مرجھا جاتا اگر کام کرنے والی اماں کو پالک لینے دو گلیاں پار نہ بھیجتی۔ لوٹی تو سانس پھولا ہوا تھا۔ بولی تو گویا کانوں میں کسی نے سیسہ انڈیل دیا ہو۔
وہ جی پھول کو آپ کے بڑے بچے نے دبوچا ہوا تھا۔

اکیلا گراؤنڈ میں بچے کو گالوں پر کتوں کی طرح سے چاٹ رہا تھا۔ پھول چیخ رہا تھا۔ کیا بکتی ہے۔ میں سچ کہہ رہی ہوں وہ زور سے بولی۔
مجھے نویں مہینے کے آخری دن چل رہے تھے۔ بھاگ دوڑ کر گراؤنڈ تک پہنچی تو جعفر اور منا گراؤنڈ میں نہ تھے۔ وہ دوسرے راستے سے گھر پہنچ گئے تھے۔ جعفر میرے جیٹھ کا بیٹا تھا۔ عمر چودہ سال تھی ماں ایک سال پہلے مری تھی۔ جیٹھ سعودی عرب میں تھا۔ جعفر ہماری ذمہ داری تھا۔ بظاہر بھولا بھالا جعفر اند ر سے پورا جنسی درندہ بن چکا تھا۔ میں گھر پہنچی تو وہ منے کو پیٹ پر بٹھائے بیٹھا تھا۔ میں نے آتے ہی اسے تھپڑ لگا یا اور گھر سے نکل جانے کو کہا میاں صاحب آڑے آگے کہنے لگے بچہ ہے کہاں بھیجوں بگڑ جائے گا۔ ا ور جو سب کو بگاڑ دیا تو۔ اسلام آباد سے ٹکٹ لے کر گھر پہنے کچہر ی لگی۔ جنسی درندے نے اپنی دادی کو جھوٹے مظالم کی داستان سنائی وہ چراغ پا ہو گئی۔

بہو الزام تراشی مت کر اپنا بچہ سمجھ کر پالنے کی کہ کو شش کر پورا زور لگایا۔ مگر کوئی نہ مانا بیوہ نند مجھے قسم دے کر بولی باجی اوپر پیٹی والے کمرے میں چھوٹی لڑکیوں کے منہ میں اپنا عضو ڈالتا تھا۔ وہ انکار کرتی تھیں۔ تو مارتا تھا۔ دل دہل گیا مزید سراغ یہ ملا کہ یہاں بچوں میں یہ چیز عام ہے اور یہ لوگ برا بھی نہیں مناتے کہ یہ تو لڑکوں کی شان ہے۔ دادی نے جھومتے ہوئے کہا کہ فکر نہ کر آج کل تو گھر گھر یہ تماشا ہو رہا ہے۔ پھر آنکھ دبا کر بولی یہ سب ڈش کا کمال ہے۔ زیادہ فکر کرے گی تو ہلکان ہو جائے گی۔ میں نے ایک نظر پھول پر ڈالی جس کا رنگ ابھی بھی زرد تھا۔ ہولے ہولے سسکیاں بھرتا رہتا تھا۔

دل چاہا اس کتیا کو چونڈے سے پکڑ کر پاؤں کے نیچے رکھوں اور جو حقہ وہ منہ میں دبائے ہوئے تھی۔ اس کی نڑی اس کے پیٹ میں گھسا دوں۔ حرام زادی۔ گندی عورت دل میں صرف ہی کہہ سکی۔ جوائنت سسٹم پر مبنی یہ گھر گھر نہ تھا۔ لڑکے لڑکوں کو چمٹ کر سوتے تھے۔ لڑکیاں لڑکوں کو چمٹی رہتی تھیں۔ عورتیں دیوروں، جیٹھوں پر حق جماتیں اور دیور جیٹھ بھائیوں او ر سالیوں کے سب کے سامنے بوسے لیتے گلے سے چمٹاتے۔ یہ رسم و رواج تھے۔ یہ سسرال گویا قوم لوط تھا۔ مگر اس قوم کو سزا ملی وہ الٹ گئی۔ اور یہ قوم گویا الٹانے کے لیے آئی تھی۔ مرد مرد کم اور ہیجڑے زیادہ لگتے تھے۔ رشتے کی بھابیوں سے پنڈلیوں کی مالش کروانا دن دیہاڑے لے کر کمرے میں گھس جانا۔ تقریبات میں لچر اورفحش قسم کے مذاق کرنا جنسی اعضا کو مذاق کا نشانہ بنانا یہ سب ان کے لیے عام سی باتیں تھیں۔

جعفر کو خود پر اختیار نہ تھا۔ اس کے اندر مرض تھا۔ کیڑا تھا۔ جو اسے کاٹتا تھا۔ کوئی لاوا تھا۔ جو اس کے اندر پکتا تھا۔ اس کے ہدف معصوم بچے تھے۔ کبھی کبھی تو وہ بچوں کے ہونٹ سجا دیتا، ہٹا کٹا سانڈ تھا۔ جیٹھ کا گھر پر ہولڈ تھا۔ اور جعفر کو کوئی کچھ نہ کہہ سکتا تھا۔ پھول کے بعد ہنی دنیا میں آگیا تھا۔ میں بہت پریشان تھی۔ اس ماحول سے بچے کیسے دور لے جاؤں ہر وقت جعفر کا خوف دل میں سمایا رہتا۔ پھول کو کمرے سے نکلنے نہ دیتی۔ ہنی کو سینے سے چمٹا ئے رکھتی سوا سال کا پھول باہر جانے کو مچلتا تھا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2