برہمن اور شودر میں بٹی صحافت


ہندو جاتے جاتے جہاں ہمیں دیگر شعبہ ہائے زندگی میں ذات پات، رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیازی روئیے سونپ گئے وہیں صحافت میں بھی سابق جنرل پر ویز مشرف کے آمرانہ دور کے بعد میڈیایلغار کے نتیجے میں صحافت جیسے پیغمبرانہ پیشے میں گھس بیٹھیوں کی آمد نے نہ صرف حقیقی صحافیوں کی ساری زندگی کی کمائی گئ عزت روند ڈالی ، نظریاتی صحافت کا گلہ گھونٹ دیابلکہ صحافت کے اندر بھی بر ہمن اور شودر بنا دئیے۔ مال پیسہ بنانے اور مفادات کے تحفظ کی کوکھ سے جنم لینے والی کمرشل صحافت مفاد پرست بنیے کے ہاتھ آئی تو اس نے بولی لگا کرصحافت کے اصولوں سے نا بلد گفتار کے غازی نو واردافراد کے ہاتھ میں قلم اور مائیک دے کر صحافت کی حرمت کو داؤ پر لگا دیا اور نا چاہتے ہوئے بھی پیٹ کے ہاتھوں مجبور کئ نظریاتی صحافی بھی صحافتی اصولوں کی پامالی کے اس طوفان بد تمیزی کا حصہ بن گئے۔

صحافت میں کارو باری اصولوں پر عدم سمجھوتے کے قائل بنیے کی جس علاقے کی دکان میں اشتہارات کی صورت میں منافع آیا اس علاقے کے صحافی برہمن کہلائے اور جن علاقوں میں مندی کا رحجان ملا وہاں کے صحافی شودر ۔ ملک کے تمام بڑے شہر بشمول کراچی ، لاہور، اسلام آباد کے صحافیوں کو کمرشل بنیادوں پر منافع بخش ہونے کی وجہ سے پر کشش تنخواہ اور مراعات ملنے لگیں جبکہ دوسری جانب اشتہارات نہ دینے والے علاقوں کے صحافی، بنیے نے بوجہ مجبوری رکھے تو ضرور لیکن انہیں شودر کا درجہ دیا گیا۔ میڈیا کے ارباب اختیار کی برہمن اور شودر کی اس تقسیم سے پاکستان کی پسماندہ اور کمزور اکائیوں کے مسائل جو میڈیا کی طاقت سے حل ہونے تھے صحیح طریقے سے اُجاگر نہ ہو سکے اور اس روئیے کے نتیجے میں بلوچستان جیسے محروم علاقوں میں احساس محرومی مزید بڑھتی گئی ۔قومی میڈیا کی برہمن اور شودر پالیسی کی وجہ سے فاٹا اور بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ اختصار کی وجہ سے صرف بلوچستان میں شودر برہمن پالیسی کی شکار صحافت کی چیدہ دستوں کا احاطہ کروں گا۔

بلوچستان چونکہ اشتہارات کی مد میں کم حصہ ڈالنے کی وجہ سے قومی میڈیا ہاؤسز کے لئے شودر کا درجہ رکھتا ہے اس لئے بلوچستان صرف بم دھماکوں ، یا کسی بڑی آفت کی صورت میں پرنٹ اور الیکٹرو نک میڈیا میں جگہ اور وقت کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ لاہور، کراچی یا بڑے شہر کی کمرشل اہمیت کے حامل علاقے میں بکری کے بچے کا کنویں میں گرنا تو میڈیا میں جگہ پالیتاہے لیکن بلوچستان کے پسماندہ علاقے میں بورنگ کنویں مین سسک سسک کر مرنے والی چھوٹی بچی میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول نہیں کروا سکی ، برہمن آبادی کے گلی محلے کی تقریبات میڈیا کی زینت بنتی ہیں لیکن بلوچستان میں امن کے قیام کے لئے سرکار کے کروڑوں روپوں سے ہونے والے سپورٹس و دیگر اہم سرگرمیوں کے لئے بلوچستان حکومت کے تعلقات عامہ کے افسران کی اخبارات اور ٹی وی کے ہیڈ آفسز سے کوریج کی درخواست کی جاتی ہے، اور تو اور پر امن بلوچستان کے لئے بلوچستان حکومت اور آئی ایس پی آر کے تعاون سے منعقدہ پروگرامز کے لئے بھی آئی ایس پی آر کو اپنے تعلقات استعمال کر کے انکی مناسب کوریج یقینی بنانی پڑتی ہے۔

بلوچستان میں ڈیڑھ عشرے کے دوران درجنوں صحافی بم دھماکوں اور ٹار گٹ کلنگ میں شہید ہوئے، متعدد پریس کلبز کی کئی ماہ تک تالا بندی رہی ، اخبارات کی ترسیل بند رہی لیکن شودرعلاقہ ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ قومی میڈیا کی توجہ نہ حاصل کر سکا۔ سال 2017 بلوچستان اور بلوچستان کے صحافیوں کے لئے اس حوالے سے انتہائی مشکل رہا، اس دوران گوادر ، خضدار، سوراب، نوشکی ، تربت سمیت بلوچستان کے 22 پریس کلبز تین ماہ تک بند رہے ۔

کالعدم تنظیم کی دھمکی کی وجہ سے اخبارات شائع ہوئے لیکن ان کی ترسیل بہ زور طاقت بند کر دی گئی، حب اور نوشکی میں میڈیا کے دفاتر پر دستی بموں سے حملے کئے گئے اس تمام صورتحال میں قومی میڈیا کا کر دار شودر پالیسی کا عملی نمونہ پیش کرتا رہا ۔ حالانکہ جن حالات میں بلوچستان کا صحافی کام کر رہاہے اس کا احاطہ الفاظ سے نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے میں جب کالعدم تنظیمیں کی دھمکیوں کے سائے میں آپ رپورٹنگ کریں، اخبارات نکالیں، اور تو اور خود کو جمہوریت کی چیمپیئن والی جماعتوں کی خبروں کو میرٹ کی بنیاد پر مناسب کوریج نہ دینے کی وجہ سے ان کے عتاب کا شکار ہوں ، تنخواہوں کی مد میں آپ کو مالکان سے معمولی وظیفہ اور بیگار لی جاتی ہو اور سونے پر سہا گہ کوئی بھی ریاستی ادارہ آپ کو تحفظ نہ دے سکے تو پھر کونسی صحافت اور کہاں کی صحافت ؟

قومی میڈیا کا بلوچستان کے ساتھ روا روئیےمیں تنخواہوں کی غیر منصفانہ تقسیم جلتی پر تیل کے مصداق مسئلہ کو گھمبیر بناتے ہوئے ہے ، قومی میڈیا کے لئے کام کرنے والے کوئٹہ کے صحافی اور کراچی ، لاہور سمیت بڑے شہروں کے صحافیوں کی تنخواہوں میں بہت بڑا فرق صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ کوئٹہ میں کسی بھی چینل کے بیورو چیف، رپورٹر ، کیمرہ مین، فوٹو گرافر کی تنخواہ دیگر شہروں کے انہی پوزشینر پر کام کرنے والے ورکرز سے کسی طرح بھی مطابقت نہیں رکھتی ۔ بلوچستان بھی پاکستان کا حصہ ہے یہاں کے مسائل بھی قومی مسائل ہیں اور یہاں کے لوگ بھی اتنے ہی محب وطن، اہم ہیں جتنے ملک کے دیگر حصوں کے لوگ ۔

اپنی جان ہتھیلی پر دھرےنا مساعد حالات میں کام کرنے والے یہاں کے صحافی کا بھی تو تنخواہ سمیت دیگر مراعت پر اتنا ہی حق ہے جتنا ملک کے دیگر صحافیوں کا ہے ، میڈیاانڈسٹری کے زمہ داران کو بلوچستان سے اگر اشتہارات کی کمی کا گلہ ہے تو اس میں قصور یہاں کے عام لوگوں کا تونہیں کہ ان کے مسائل کو اہمیت صرف اس وجہ سے اہمیت ہی نہ دی جائے۔ بلوچستان کے لوگوں کی شنواہی قومی میڈیا نہیں کرے گا تو وہ اپنی آواز متعلقہ حلقوں تک کیسے پہنچائیں گے۔ گو بغیر اشتہارات کے کوریج دینا مالکان کے لے ایک کڑوا گھونٹ ہے لیکن ہو سکتا ہے میڈیا کے ارباب اختیار کی معمولی توجہ بلوچستان کے سلگتے مسائل اُجاگر کر کے ان کے حل کے لئے راستہ ہموار کر دے اور بنیادی سہولیات سے محروم ملکی معشیت میں کلیدی کر دار ادا کرنے والے صوبے بلوچستان کے لوگوں کو بھی اپنے آئنی حق تک رسائی مل سکے۔ یوم صحافت صحافتی اقدار کی تجدید کا دن ہے،اس تجدید عہد میں شودر اور برہمن پالیسی کو بدلہ بھی تو جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).