مری والو اپنا رویہ بدلو، چھٹیاں آ رہی ہیں


مری

یہاں تو دنیا ہی بدل چکی ہے۔

پہاڑوں کے بیچ میں سے گزرتی، بل کھاتی شاندار موٹر وے نے سفر کو آسان اور آرام دہ بنا دیا ہے۔ میں چند روز قبل جب مری جا رہا تھا تو مجھے 19 برس قبل اپنا سفر یاد آ رہا تھا جب میں جی ٹی روڈ کے ذریعے مری گیا تھا۔

پتلی اور ون وے سڑک، ویگن کا تیزی سے موڑ کاٹنا اور سارے راستے میری الٹیاں۔ سفر تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ 1999 میں تو مقصد گھومنا پھرنا اور تفریح تھا لیکن اِس مرتبہ میرے جانے کی وجہ کچھ اور تھی۔

گذشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا پر ‘بائیکاٹ مری’ کے نام سے ایک مہم جاری ہے۔ اِس مہم کا آغاز سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی اُن ویڈیوز کے بعد ہوا جن میں مبینہ طور پر مری کے مقامی لوگ سیاحوں کی پٹائی کر رہے ہیں۔

پھر یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ رقم کے معاملے پر مری کے مقامی لوگوں نے وہاں جانے والی کسی فیملی کے ساتھ بد تمیزی کی۔ اِس کے بعد اسلام آباد میں میری کئی لوگوں سے بات ہوئی جن کا خیال ہے کہ مری میں یہ مسئلہ بہت پرانا ہے۔

مری

اسلام آباد کے رہائشی فرحان احمد کا کہنا تھا کہ انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے خاندان کے ہمراہ مری کے بجائے اب سوات یا کسی اور تفریحی مقام پر جائیں گے۔

‘مری سے جس طرح کی اطلاعات آ رہی ہیں ہم نے اِسی وجہ سے یہ فیصلہ کیا ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ اتنے پیسے بھی خرچ کریں اور مزے کے بجائے خوف کا سامنا کریں۔ ان لوگوں کا رویہ تو ہمیشہ سے خراب تھا لیکن اب بات اسے سے آگے نکل گئی ہے۔’

میں نے فرحان احمد سے پوچھا کہ مری میں کبھی ان کے ساتھ کچھ برا ہوا ہے یا انھوں نے یہ باتیں صرف سنی ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ وہ کئی بار جا چکے ہیں لیکن کبھی وہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ کسی لڑائی جھگڑے کا سامنا نہیں کیا البتہ فرحان نے تلخ رویے کی شکایت ضرور کی۔

دوسری جانب جب ہم مری کی مال روڈ پر پہنچے تو دیکھا کہ وہاں مقامی لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔

ڈرتے ڈرتے آگے بڑھے تو کچھ لوگ ہماری گاڑی کی طرف بھی آئے اور ہمیں پھول پیش کیے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے بھائی، تو انھوں نے کہا ‘سر ویلکم ٹو مری’ مری میں خوش آمدید۔

وہاں پر موجود لوگوں نے کہا کہ وہ سیاحوں کے استقبال کے لیے کھڑے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ اب کیوں یہ خیال آیا ہے تو ان میں سے ایک صاحب بولے ‘مری کے لوگوں کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ وہ بدتمیز ہیں، سیاحوں کو مارتے ہیں، مہنگی چیزیں بیچتے ہیں۔ ہم ان الزامات کو غلط ثابت کرنے کے لیے یہاں موجود ہیں۔’

مری

پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے اعداد و شمار کے مطابق گرمیوں اور سردیوں کی تعطیلات کے دوران کم از کم دس ہزار سیاح روزانہ مری آتے رہے ہیں۔ سالانہ یہ تعداد ایک کروڑ تک بتائی جاتی ہے۔

مری کی تقریباً پوری معیشت سیاحت کے زور پر چلتی ہے لیکن اسلام آباد میں عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ مری کے لوگ مہمان نواز نہیں رہے اور ان کا رویہ عموماً خراب ہوتا ہے۔

ایک مقامی شخص شاہد عباسی نے کہا کہ چند لوگوں کے رویے کی سزا پورے مری کو دینا غلط ہے۔ انھوں نے کہا کہ مری میں چند افراد کا رویہ ضرور خراب رہا ہے لیکن ان پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ انھیں اب ایسا نہیں کرنے دیا جائے گا۔

لیکن سیاحوں کا موقف ذرا مختلف ہے۔

ہماری ملاقات تین دوستوں سے ہوئی جو مری کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ اِن میں سے ایک نے کہا کہ مری میں تین چیزیں عام ہیں چڑھائی، اترائی اور مہنگائی۔

ان دوستوں نے بتایا کہ وہ روزانہ چار ہزار روپے ہوٹل کا کرایہ دے رہے ہیں لیکن ہوٹل کے عملے کا رویہ پروفیشنل نہیں ہے۔

مری

‘یہ لوگ تمیز سے بات نہیں کرتے۔ کسی مسئلے کی طرف توجہ دلاؤ تو بڑی بےرخی اور بیزاری سے جواب ملتا ہے۔ مرغی کا سالن منگوایا تو اس میں کچھ سرخ رنگ نظر آیا۔ پوچھا تو جواب ملا یہ ایسا ہی ہوتا ہے کھانا ہے تو کھاؤ ورنہ کچھ اور منگوا لو۔’

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب سے پاکستان میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے تو سیاحوں کو کئی دوسرے خوبصورت تفریحی مقامات تک رسائی ملی ہے۔ اس کے نتیجے میں اب مری کی وہ حیثیت نہیں رہی جو پہلے تھی۔

مری کے مقامی لوگوں کو کسی بھی طرح اپنے خلاف منفی تاثر کو درست کرنا ہوگا۔ چھٹیوں کا سیزن شروع ہونے کو ہے اور بائیکاٹ مری کی مہم بھی جاری ہے۔

اِس تناظر میں مری کے ہوٹل مالکان، تاجروں، دکانداروں اور مزدوروں کے لیے صورتحال بظاہر کچھ زیادہ اچھی نظر نہیں آ رہی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ زیادہ تر سیاح مری میں رکنے کے بجائے آگے بڑھنے کو ترجیح دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp