مزارع عوام کے ہمدرد حکمران


پولیس کی ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کل نارووال میں وزیر داخلہ احسن اقبال پر حملہ کرنے والا نوجوان لبیک تحریک کا ہمدرد ہے جبکہ لبیک تحریک کے رہنماؤں نے اس شخص سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اس حملہ کی مذمت کی ہے۔ لبیک تحریک کی بنیاد اور اس کا مختصر ماضی اگرچہ اس بات کی گواہی نہیں دیتا کہ یہ تنظیم عدم تشدد پر یقین رکھتی ہے لیکن اس کے لیڈروں خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری نے ایک بیان میں احسن اقبال پر حملہ کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ لبیک تحریک تحفظ ختم نبوت کے لئے پر امن جد و جہد پر یقین رکھتی ہے۔ لبیک تحریک کی طرف سے کل کے حملہ سے بریت کا اعلان ہونے کے باوجود ملک بھر میں وزیر داخلہ پر حملہ کی اصل وجہ سیاسی مقاصد کے لئے تشدد کے رجحان اور مذہبی منافرت کو ہی قرار دیا گیا ہے۔ تمام مباحث میں یہ سوال جائز طور سے سامنے آرہا ہے کہ اگر اختلاف رائے کو کسی کے ایمان کا پیمانہ بنا لیا جائے گا اور نوجوانوں کے ذہنوں کو ماؤف کردیا جائے گا تو وہ متبادل رائے کو ایمان پر حملہ قرار دیتے ہوئے یا سمجھتے ہوئے ہتھیار بند ہو کر کسی بھی لیڈر یا فرد کی جان لینے پر آمادہ ہو جائیں گے۔ یوں تو اس مزاج کے مظاہر اکثر دیکھنے میں آتے ہیں لیکن جب ملک کےوزیر داخلہ پر ایک نوجوان صرف اس لئے گولی چلا کر ان کی جان لینے کی کوشش کرے کہ اس کے خیال میں اس کا سیاسی مؤقف اس رائے سے الگ ہے جو وہ اپنے لیڈروں سے سنتا ہے تو یہ سنگین معاملہ ہے جس پر سیاست کرنے کی بجائے اس پر توجہ دینے اور اس مزاج کے خلاف مؤثر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ملک بھر سے کل وزیر داخلہ پر حملہ کے بعد مذمتی بیانات کا تو تانتا بندھا رہا ہے لیکن کسی سیاسی رہنما یا ادارے کی طرف سے ابھی تک کوئی ایسا مؤقف سامنے نہیں آسکا ہے جس میں مذہبی شدت پسندی کو ختم کرنے کے لئے عملی اقدام کرنے کی بات کی گئی ہو۔ مسلم لیگ (ن) اس حملہ کو اپنی مظلومیت ثابت کرنے اور سیاسی ہمدردی حاصل کرنے کا ذریعہ بنانا چاہتی ہے جبکہ اپوزیشن پارٹیاں حملہ کی مذمت کرنے کے بعد سمجھتی ہیں کہ ان کی ذمہ داری ختم ہو گئی۔ حالانکہ عدم برداشت کا جو مزاج گزشتہ تیس چالیس برس میں استوار کیا گیا ہے ، اسے ختم کرنے کے لئے سیاسی قوتوں کے علاوہ مذہبی جماعتوں کو بھی ایک زبان ہو کر میدان عمل میں اترنے کی ضرورت ہے۔ تاہم اب احسن اقبال پر حملہ کے ملزم پر چونکہ لبیک تحریک سے وابستگی کا شبہ سامنے آیا ہے ، لہذا ملک کی تمام مذہبی قوتیں بھی اس معاملہ پر خاموشی اختیار کرنے کو ہی بہترین حکمت عملی سمجھیں گی۔ اسی ’خاموش مصلحت ‘ کا مظاہرہ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں کیپٹن صفدر کی پیش کردہ قرارداد کی منظوری کے وقت بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ اس قرار داد میں اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کا نام تبدیل کرکے بارھویں صدی کے ایک مسلمان سائنسدان کے نام سے موسوم کرنے کی تجویز منظور کروائی گئی تھی۔ یہ اچنبھا تو بعد میں منکشف ہؤا کہ قرارداد پیش کرنے کا اصل مقصد تو عالمی شہرت یافتہ فزکس کے ماہر ڈاکٹر عبد السلام کو بے تو قیر کرنا تھا کیوں کہ نواز شریف نے 2016 میں وزیر اعظم کے طور پر ڈاکٹر عبدالسلام کی خدمات کے اعتراف میں قائد اعظم یونیورسٹی کے سینٹر فار فزکس کا نام ان کے نام سے موسوم کرنے کا حکم دیا تھا۔ البتہ قرارداد پیش کرنے والوں کی کم علمی کی وجہ سے اس میں سینٹر کی بجائے شعبہ فزکس درج کردیا گیا۔ لیکن اس غلطی کے باوجود کیپٹن صفدر اور ان کے حواری تعصب اور نفرت کا پیغام سامنے لانے کے مقصد میں پوری طرح کامیاب ہوئے۔ سب لوگ سمجھ گئے تھے کہ اچانک اس قرارداد کی وجہ تسمیہ کیا ہے اور کسی بھی رکن اسمبلی نے اس قرارداد کی مخالفت کرنے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی۔ احسن اقبال پر چلنے والی گولی اب یہ جواب سب کے سامنے لے آئی ہے۔ ختم نبوت کے نام سے ملک میں ایک ایسی نفرت اور تعصب کو فروغ دیا جارہا ہے جس کا نشانہ صرف احمدی عقیدہ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی نہیں بن رہے بلکہ اب یہ آگ وفاقی حکومت میں شامل ارکان کے دامن تک پہنچ چکی ہے۔ ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے ذمہ دار وزیر پر حملہ بتا رہا ہے کہ مذہب اور عقیدہ کے نام پر اشتعال پھیلایا جائے گا تو اس کے مہلک اور خطرناک نتائج سامنے آئیں گے۔

لبیک تحریک کا آغاز پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قتل میں ملوث ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد احتجاج کے طور پر ہؤا تھا۔ اس تحریک کے زعما نے فروری 2016 میں ممتاز قادری کی پھانسی کو ’حرمت رسول‘ کا معاملہ بنا کر ملک کے ہر ادارے کو نشانہ بنایا اور ہر قابل احترام عہدے دار کے خلاف دشنام طرازی کی۔ ان میں حکومت کے ارکان کے علاوہ، فوج کے سربراہ اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان بھی شامل تھے۔ ممتاز قادری کے چہلم کے موقع پر منعقد ہونے والے جلسہ میں بھی یہ سلسلہ جاری رکھا گیا ۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر کے قاتل کو ملک کی سب سے بڑی عدالت سے ملنے والی سزا کے بعد ممتاز قادری کی میت کو شان و شوکت سے اسلام آباد کے نواح میں اس کے آبائی گاؤں میں لے جایا گیا جہاں اس کا شاندار مزار تعمیر کیا گیا ہے۔ قبر پر نصب لوح میں اسے اسلام کا ’غازی اور شہید‘ قرار دیا گیا ہے۔ لبیک تحریک کے رہنماؤں نے ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد پیدا کی جانے والی جذباتی کیفیت میں اپنے لئے سیاسی گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ جماعت آئیندہ انتخابات میں ہر حلقہ سے اپنے نمائیندے کھڑے کرنے کا اعلان کررہی ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ اس مذہبی اشتعال انگیز گروہ کے کیا سیاسی مقاصد ہیں یا وہ انتخاب میں کامیابی کے بعد کس سیاسی ایجنڈے پر عمل کریں گے۔ تاہم لبیک تحریک کے لیڈروں نے گزشتہ برس نومبر میں فیض آباد دھرنے اور اس سال اپریل میں لاہور میں داتا صاحب کے مزار پر دھرنا کے ذریعے یہ ضرور ثابت کیا ہے کہ وہ قانون کو جوتے کی نوک پر لکھتے ہیں اور حکومت سمیت ملک کے سب طاقتور ادارے ان کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ان تمام مذہبی جماعتوں کو بھی خاموش رہنے پر مجبور کردیا ہے جو ان لوگوں سے شدید مسلکی اختلاف رکھتی ہیں لیکن یہ کہنے کا حوصلہ یا جرات نہیں کرتیں کہ ان لوگوں نے جو مؤقف، طرز عمل اور طریقہ اختیار کیا ہے ، اس کی اجازت نہ تو مذہب دیتا ہے اور نہ ہی کوئی مہذب معاشرہ اس طرح کے سیاسی مذہبی رویہ کا متحمل ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ یہ لوگ ختم نبوت اور حرمت رسولﷺ کی حفاظت کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ اس نعرہ کی بنیاد پر اتنا تعصب عام کردیا گیا ہے کہ اسے سننے کے بعد کوئی سیاسی یا مذہبی رہنما ان لوگوں کی نیتوں اور ارادوں کے بارے میں بات کرنے کا حوصلہ کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔

 فیض آباد کا دھرنا بھی بے بنیاد مطالبہ پر دیا گیا تھا اور داتا صاحب کے باہر دیا جانے والا دھرنا تو صریحاً لبیک تحریک کے لیڈروں کے خلاف قائم مقدمات میں گرفتاریاں رکوانے کے لئے دیاگیا تھا۔ لیکن اس میں تحفظ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے حساس نعرے استعمال کئے گئے۔ اس تحریک کے لیڈر حرمت رسول ﷺ کی حفاظت کرنے کے دعوے دار ہیں لیکن ان سے کوئی یہ پوچھنے کا حوصلہ نہیں کرتا کہ جب وہ خود ہی ختم نبوت اور حرمت رسول کے نعرے ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لئے لگاتے ہیں تو اس سے بڑی توہین رسول اور کیا ہو سکتی ہے؟ کیا کوئی اس بات کی تردید کر سکتا ہے کہ داتا صاحب کے باہر دیا جانے والا دھرنا اس وعدے کے بعد ختم کیا گیا تھا کہ خادم رضوی اور اس کے ساتھیوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کے مقدمے ختم کئے جائیں گے اور یہ وعدہ حاصل کرنے کے بعد یہ دھرنا ختم کردیا گیا۔ ایسا جھوٹ اور مکر کرنے والے مذہبی رہنما اس ملک و قوم کے لئے بوجھ بن چکے ہیں لیکن ملک کا کوئی قانون اور طاقتور ترین ادارہ بھی ان کی زبان بندی اور نفرت کے پیغام کو عام کرنے کے طریقہ کو روکنے کے لئے تیار نہیں۔ بلکہ لوگوں کو سہولتیں بہم پہنچانے کے نعرے پر ووٹ لینے والے کیپٹن صفدر جیسے ارکان اسمبلی تعصب اور مذہبی منافرت کی بنیاد پر قرارادیں منظور کروانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ یعنی جس چراغ سے روشنی کی امید کی جاسکتی ہے ، اسے ہی اس گھر کا دامن خاکستر کرنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ ایسے میں مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کس برتے پر دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایک بار پھر کامیابی حاصل کرکے پارلیمنٹ کے ذریعے سپریم کورٹ اور فوج جیسے اداروں کو حدود میں رہنے پر مجبور کردیں گے۔ جب ملک کی سب سے بڑی اور حکمران سیاسی جماعت مذہبی منافرت کو روکنے کی بجائے خود اس عمل کا حصہ دار بن کر اس آگ کو ہوا دے رہی ہے جو کل ایک گولی کی صورت میں وزیر داخلہ احسن اقبال پر داغی گئی تو اس سے کس طرح خیر کی توقع وابستہ کی جائے۔

نواز شریف نے آج احتساب عدالت کے باہر اخباری نمائیندوں سے باتیں کرتے ہوئے احسن اقبال پر حملہ کے بارے میں کہا کہ ’جب فیض آباد پر دھرنا دینے والے لوگوں کو ہزار ہزار روپے دئیے جائیں گے تو اس کے نتائج بھی سنگین ہوں گے‘۔ نواز شریف کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’قوم اس ملک کی مالک ہے، کوئی مزارع نہیں ہے‘۔ وہ ان بالواسطہ جملوں سے فیض آباد دھرنے میں فوج کے کردار کی نشان دہی کر کے، یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وزیر داخلہ پر حملہ سے لے کر ان کی سیاسی مشکلات تک کی اصل وجہ فوج کا منفی کردار ہے۔ اس دعویٰ پر تو صرف اسی صورت میں غور کیا جا سکتا ہے جب اس معاملہ میں مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ صاف ہوں گے۔ سابق وزیر اعظم کے اپنے داماد اور انہی کی جماعت کے رکن قومی اسمبلی کیپٹن صفدر نے 3 مئی کو قومی اسمبلی سے جو قرارداد منظور کروائی ہے، وہ بھی ملک میں تشدد کی راہ ہموار کروانے میں وہی کردار ادا کرے گی جو فیض آباد کے دھرنے میں شامل مذہبی جنونیوں کو ہزار ہزار روپے کے نوٹ بانٹنے والے جرنیل نے کیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali