یہ فلم پہلے بھی پٹ چکی ہے اور اب تو پرنٹ بھی گھسا پٹا ہے


وطن عزیز میں جاری سیاسی کشمکش سے سیاسی جماعتوں کی بجائے اداروں کے مابین محسوس ہو ہو رہی ہے۔ پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے فکر مند طبقات کے لئے ایک دعوت فکر بنتی جا رہی ہے کہ پاکستان کے عوام سیاسی اعتبار سے انگریز سے آزادی کے وقت جس مقصد کے حصول کے لئے کمر بستہ تھے وہ صرف جغرافیائی آزادی تو نہ تھی تو کیا ابھی بھی ہمیں وہی جدوجہد درپیش ہے ۔ خیال رہے کے آزادی کی خواہش صرف اس سبب سے نہیں تھی کہ ہماری نسلی اور لسانی شناخت 7 سمندر پار سے آئے گورے حکمرانوں سے مختلف تھی۔ یقیناً وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ شناخت اختلاف بھی تھا ۔ مگر بنیادی نوعیت کی وجوہات میں سے یہ مضبوط ترین تصور تھا کہ ہندوستان سونے کی چڑیا ہے۔ مگر مقامی افراد پھر بھی پسماندہ ہیں۔ اور اس پسماندگی کی بنیادی وجہ برطانیہ کا ہندوستان پر قبضہ ہے۔ ہندوستان آزاد ہو گا تو ہندوستان کی قسمت کے فیصلے مقامی افراد کریں گے۔ اور ان کو یہ فیصلے کرنے کا اختیار عوام اپنے حق رائے دہی سے سونپے گی۔ لہٰذا اگر کوئی عوامی توقعات پر پورا نہ اتر سکا تو عوام اسے جمہوری طاقت سے جمہوری اقتدار کے ذریعے گھر کا راستہ دکھا دے گی۔ تحریک آزادی کے تمام رہنماﺅں نے آزادی کا نعرہ اسی نظام حکومت کے قیام کی خاطر بلند کیا تھا۔ خیال رہے کہ اس وقت بھی جن ممالک میں جمہوریت رائج تھی وہ مسائل اور حکومت کی کارکردگی کے مسائل سے مبرا نہیں تھے۔ مگر تحریک آزادی کے رہنماءیہ جانتے تھے کہ ان مسائل سے نبردآزما جمہوری طریقہ کار سے ہوا جا سکتا ہے نہ کہ کسی نوعیت کی آمریت یا کنٹرول ڈیموکریسی ان مسائل کا حل ہے۔

ساورکر ہندو مہاسبھا کے رہنما تھے اس نے آزادی حاصل کرنے کی غرض سے اپنا یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ “ہمیں ایڈورڈ کی جگہ اورنگزیب نہیں چاہیے کہ صرف اس لئے کہ اورنگزیب ہندوستان میں پیدا ہوا تھا” ۔ اس نے تو اپنی گفتگو میں مذہبی اختلاف کو اہمیت دی تھی مگر اگر ہم غور کریں تو یہ واضح ہو گا کہ ہم نے بھی پاکستان اس لئے حاصل نہیں کیا تھا کہ یہاں پر کوئی نیا “بادشاہ ” حاکم بن بیٹھے۔ یہ بادشاہ چاہے شخصیت کی صورت میں ہو یا چاہے طاقت کے زور پر کسی ادارے کا ہر ادارے پر اپنے آپ کو بادشاہ تصور کرنے کا معاملہ ہو ۔ یہ ہمارا مقصد نہیں تھا بلکہ آزادی کے وقت جمہوری معاشرے اور مملکت کا قیام منزل تھی۔ اور یہ منزل عوام کی رائے سے منتخب افراد کے ذریعے آئین سازی اور اس آئین کی تبدیلی اور تشریح کا غیر متنازعہ حق پارلیمنٹ کو عطا کرنا تھا۔ بد قسمتی صد بدقسمتی کہ آج بھی ہم اپنی اس منزل کی حصول کی خاطر راہ میں ہیں۔ اور مخمصے ہمارے سامنے ہیں۔ اس غرض سے میں ابتداءمیں عرض کر چکا ہوں کہ آزادی ملنے کے بعد بھی آزادی حاصل کرنے کا معاملہ بھی ہمیں درپیش ہے۔ آج ماضی گواہ ہے کہ اور یہ انسان کے تجربے میں بارہا آ چکا ہے کہ آزادی کو سلب کرنے کی خاطر ہمیشہ خوش کن دعویٰ اور نعرے بلند کیے جاتے ہیں۔ اپنے برتری کو جتایا جاتا ہے مگر ان کی حقیقت صرف اپنی آمریت کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔

مسٹر ایس ایل ایمری دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ میں وزیر ہند کے عہدے پر فائض تھے جو ہندوستان کے معاملات کے حوالے سے برطانیہ میں اعلیٰ ترین عہدہ تھا۔ انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی پارلیمان میں ہندوستان کے مسئلے پر متعدد تقاریر کیں جو انگریزی اخبارات میں حرف بحرف شائع کیں۔ اور پھر کتابی شکل میں بھی شائع ہوئیں۔ کتاب کے پیش لفظ میں مسٹر ایس ایل ایمری نے تحریر کیا کہ “جہاں تک ہندوستان کو غلام بنانے اور اس کو آزادی حاصل کرنے کے مواقع سے محروم رکھنے کا تعلق ہے میں یہ بتاﺅں گا کہ ہم نے ہندوستان کو طوائف الملوکی سے محفوظ رکھا جس کی موجودگی آزادی کے قطعاً منافی ہے۔ ہم نے اس سمندروں اور پہاڑوں سے محیط سر زمین میں قانون و امن کا راج قائم کیا جو آزادی کا جزولاینفک ہے۔ سب سے بڑھ کر ہم نے مطالبہ خود مختاری کا صحیح جذبہ پیدا کیا جسے ہندوستان والے آشنا بھی نہ تھے”۔ اس اقتباس کو درج کرنے کا مقصد یہ ہے کہ رویہ آج بھی نہیں بدلا ۔ فرق صرف یہ ہے کہ انگریز کے لئے اس دور میں برسر عام کہنا ممکن تھا کہ طوائف الملوکی سے ہم نے بچایا ۔ امن ہم نے قائم کیا۔ خود مختاری کے جذبات ہمارے سبب سے ہیں ۔

آپ مسٹر ایس ایم ایمری کی تقاریر کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ وہ ہندوستان کی آزادی کی حق کو تسلیم کرتا ہے۔ لیکن یہ ثابت کرنے میں لگا رہتا ہے کہ ہندوستان کے لوگ اس حق کو استعمال کرنے کے قابل نہیں ہوئے۔ جیسے جمہوریت اور آئین سے وابستگی کا عمومی سطح پر اظہار کیا جاتا ہے لیکن حکمت عملی بولتی ہے کہ آج بھی انگریزوں ، غلام محمد اور سکندر مرزا کی سوچ کارفرما ہے کہ پاکستان کے عوام ابھی جمہوریت کے لئے پسماندہ ہیں۔ اس لئے مرضی کی کٹھ پتلیاں نچانا ہمارا حق ہے۔ اور حق درجے خطرناک بات یہ ہے کہ آج تک ذہنی سطح ماضی کے جبر کی رائے عامہ پر مسلط کرنے سے منسلک ہے کہ ہم نے اس وقت کر لیا تھا تو اب کیوں نہیں کر سکتے۔ حالانکہ اس وقت بھی غوث بخش بزنجو ، عبدالصمد خان اچکزئی، غفار خان ، مفتی محمود سے لیکر محترمہ فاطمہ جناحؒ تک میدان عمل میں اتر آئی تھی ؒ مادر ملت سمیت ان سب کو بھارت کا ایجنٹ دوست کہا گیا تا کہ رائے عامہ کو ان کے خلاف ہموار کیا جا سکے۔ اب بھی یہی ڈرامہ رچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حالانکہ ماضی میں بھی یہ ان کو پسند کرنے والوں کے نزدیک پٹی ہوئی فلم تھی اور آج بھی پٹی ہوئی فلم ہی ہے۔ لیکن یہ فلم چلانے سے اہل نظر کے سامنے یہ سوال موجود ہے کہ کیا پاکستان آزادی کے بعد بھی اسی سیاسی حالات میں کھڑا ہے جو آزادی حاصل کرتے وقت تھی کہ آزادی چاہیے۔ گورے کے کالے جانشینوں پارلیمنٹ کی حاکمیت کی صورت میں جو تحریک آزادی کے قائدین کا مقصد تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).