پاکستانی مزدور سعودی عرب سے واپس کیوں لوٹ رہے ہیں؟


ریاض احمد

بہتر روزگار کی تلاش بہت سے پاکستانیوں کو سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک میں جانے پر مجبور کرتی ہے

2015 میں فیصل آباد کے نواحی علاقے سمُندری کے رہائشی ریاض احمد کو ان کے ایک رشتہ دار نے سعودی عرب میں نوکریوں کے بارے میں بتایا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ وہاں اچھی تنخواہ ملے گی۔

’مجھے یہ کہا گیا کہ شاپنگ مال کی نوکری ہے اور ماہانہ 1500 ریال ملیں گے لیکن وہاں جاکر ایسا نہیں ہوا، جو بتایا گیا تھا اس کے بالکل برعکس ماحول تھاـ ریاض جاتے ساتھ ہی کہا گیا کہ باتھ روم اور کمروں کی صفائی کرنی ہےـ‘

ایک ماہ گزرنے کے بعد پتا چلا کہ تنخواہ 800 ریال سے زیادہ نہیں ملے گی کیونکہ ٹیکس لگے گاـ ’ایسا ہمیں وہاں بلاتے وقت نہیں بتایا گیا تھاـ نوکری چھوڑ بھی نہیں سکتے تھے اور کوئی اور نوکری تلاش کرنے کے لیے پاسپورٹ ساتھ ہونا لازمی ہوتا ہے جو اس وقت مجھ سے لے لیا گیا تھا۔‘

پاکستان کے باقی شہروں کی طرح فیصل آباد سے بھی کئی لوگ روزگار کی خاطر سعودی عرب جاتے ہیں۔

مزید پڑھیے

سعودی عرب میں پہلی بار 25 سرکاری سکولوں کی نجکاری

سعودی عرب میں پھنسے غیر ملکی ملازم

پاکستان بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے ایک سروے کے مطابق 2016 میں چار لاکھ افراد پاکستان سے مزدوری کی خاطر سعودی عرب گئے تھے لیکن پچھلے سال اس تعداد میں واضح کمی آئی ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس دوران صرف ڈیڑھ لاکھ لوگ سعودی عرب گئے تھےـ

اس واضح کمی کی وجہ 2017 میں لگنے والا پانچ فیصد ویلیو ایڈیڈ ٹیکس، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہے جو جدّہ اور باقی شہروں میں کام کرنے والے تمام پاکستانیوں کے لیے پریشانی کے وجہ بن گیا ہےـ

ریاض احمد

اب ریاض احمد ایک اسکول کے باہر چوکیداری کرتے ہیں اور شام میں رکشہ چلاتے ہیں جس سے وہ مہینے کے 25000 کما لیتے ہیں

ریاض احمد نے کہا کہ مزدوروں یا دہاڑی پر کام کرنے والے پاکستانیوں کے لیے یہ اقدام زیادہ پریشان کن ہے کیونکہ ’ہمیں ویسے ہی کم تنحواہ بتائی جاتی ہے اور وہاں رہتے ہوئے قید ہونے کے ڈر سے شور نہیں کرتے اور یہ جانتے ہوئے بھی نہیں کرتے کہ سعودی حکومت نے ہمارا متبادل ڈھونڈ رکھا ہےـ‘

پاکستانی مزدور بتاتے ہیں کہ اکثر اُن کی جگہ انڈیا سے آنے والے افراد یا بنگلہ دیشی لے لیتے ہیں۔

’بنگلہ دیشی خاص طور سے لائے جاتے ہیں کیونکہ وہ کم پیسوں میں زیادہ کام کرتے ہیں اور اس سے ہمارے کام کی قدر خاصی کم ہوجاتی ہےـ‘

اب ریاض احمد ایک سکول کے باہر چوکیداری کرتے ہیں اور شام میں رکشہ چلاتے ہیں جس سے وہ مہینے کے 25000 کما لیتے ہیں۔

’جو مجھے سعودیہ میں مل رہی تھی یہ اس سے خاصی کم تنخواہ ہے، لیکن میں گھر میں نہیں بیٹھ سکتا، اور نہ ہی کوئی ایسی نوکری ڈھونڈ سکتا ہوں جس سے میرے گھر کا گزارا بہتر طریقے سے ہوسکے۔‘

جب میں نے ان سے پوچھا کے اگر اب کسی عرب ملک میں اچھی تنخواہ والی نوکری ملی تو کیا آپ جائیں گے؟ تو انھوں نے فورا ہی انکار کردیاـ

’میں نے دو سال اپنی غلطی کی سزا بھگتی ہے، میں اب نہیں جاؤں گاـ‘

جنوری 2016 میں کئی سعودی کمپنیوں نے خود کو دیوالیہ قرار دے کر تقریباً 12000 پاکستانیوں کو جدّہ، دمام، ریاض اور طائف سے فارغ کردیا تھاـ

کچھ پاکستانی وہیں رہے او رپاکستانی اور سعودی سفارتخانوں کے سامنے احتجاج بھی کرتے رہے، لیکن زیادہ تر نے یا تو دبئی کا یا پھر واپس پاکستان لوٹنے کا فیصلہ کیاـ

عابد حسین

سعودی عرب جانے والے عابد کہتے ہیں کہ وہاں اگر شور مچاؤ تو نوکری دینے والے اقامہ اور پاسپورٹ واپس نہیں دیتے جس کے بغیر آپ وہاں نوکری نہیں کرسکتے

عابد حسن اُنھیں میں سے ایک ہیں ـ فیصل آباد کے رہائشی عابد کو 23 سال کی عمر میں ایک رشتہ دار نے وہاں جانے کے بارے میں کہا اور ساتھ میں ویزا لگوانے کی ذمہ داری بھی قبول کرلیاـ

عابد اور ریاض کی بالکل ایک جیسی ہی کہانی ہے کیونکہ دونوں کو رشتہ داروں نے سعودی عرب جانے کے بارے میں بتایا پھر ایجنٹ کے ساتھ مل کر ان کے پیسے بھی ہڑپ لیے اور غائب ہوگئےـ

عابد نے کہا کہ ’وہاں جاتے ہی ایک چھوٹے کمرے میں دس لوگوں کو جگہ دیتے ہیں۔ آپ اگر اچھی تنخواہ کی وجہ سے چُپ بھی ہو جاؤ تو فرق نہیں پڑتا کیونکہ دو تین ماہ میں تنخواہ بھی کاٹنا شروع کر دیتے ہیں اور اگر شور مچاؤ تو اقامہ اور پاسپورٹ واپس نہیں دیتے جس کے بغیر آپ وہاں نوکری نہیں کرسکتےـ‘

اس بارے میں پاکستانی حکام کا مؤقف کم و بیش ہی منظرِعام پر آتا ہےـ

عابد حسین

سعودی عرب سے واپس لوٹنے کے بعد عابد اب اپنی پرچون کی دکان کرتے ہیں

دفترِخارجہ کے ترجمان نفیس زکریا کے مطابق 2016 تک دو لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں مقیم تھےـ

ان کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگ وہاں اپنے بقایاجات کی ادائیگی کی خاطر بیٹھے تھے لیکن پھر واپس آگئےـ

ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ وہاں قانونی طور پر گئے ان کے مسائل پر سعودی حکام سے بات چیت جاری ہے۔

لیکن زیادہ تر مزدور کمائی کرنے کے لیے سعودی عرب کا انتخاب ہی کیوں کرتے ہیں؟

اس بارے میں بات کرتے ہوئے لیبر قومی موومنٹ پاکستان کے سرپرست، حاجی اشفاق علی بٹ نے کہا کہ ’یہاں لوگوں کا گزارا نہیں ہو پاتا جس کی وجہ سے باہر جانے کو اور خاص کر سعودی عرب جانے کو، جو کہ ایک مسلم ملک ہے، ترجیح دی جاتی ہےـ‘

اشفاق نے کہا کہ وہاں جانے سے زیادہ واپس آ کر خود کو اور گھر والوں کو سنبھالنا مشکل ہے جس میں زیادہ وقت لگتا ہےـ

’بہت سے ایسے لوگ ہیں جو وہاں 50 ہزار سے ایک لاکھ تک کما رہے تھے لیکن اچانک کام ختم ہونے کی وجہ سے پاکستان واپس آکر 20000 کی نوکری کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ اس وقت مارکیٹ بہت ڈاؤن ہے اور کام نہیں ہےـ ’اس وقت وہ لوگ زیادہ ترقی کررہے ہیں جو خود کفیل ہیں یا جنھوں نے خود کا کاروبار ڈالا ہوا ہےـ مزدور کے لیے تو حکام کو آواز بلند کرنی پڑے گی جو اکثر سننے میں نہیں آتی۔‘

انھوں نے 2016 کے سعودی کمپنیوں کے دیوالیہ ہونے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’اُس وقت بھی مزدور اور محنت کش طبقہ کہتا رہا کے ہمارے بقایاجات دلانے میں مدد کی جائے لیکن زیادہ تگ و دو دیکھنے میں نہیں آئی۔‘

اسفاق کا کہنا تھا ’ایک بار پھر، پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد سعودی عرب سے اپنے ملک واپس آئی ہے اور اب دیکھتے ہیں اس بار ان کے لیے کون بات کرتا ہے یا گنجائش پیدا کرتا ہے کہ وہ اسی طرح اپنا کام جاری رکھ سکیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp