ہے کوئی پوچھنے والا؟



عجب ملک ہے، عجب حکمران اور عجب ہی عوام، ملٹی نیشنل کمپنیاں کیا گُل کھلاتی رہیں اور کھانے کے نام پر ہمیں کیا کھلاتی رہیں، کسی کو فرصت نہیں کہ پوچھے، پانی کی ایک بوتل 100 روپے میں بکے، موبائل کمپنیاں 100 کے لوڈ پہ جتنے مرضی پیسے جِس نام سے کاٹ لیں، بچوں کے دودھ تک کو جس قیمت کا ٹیگ لگا لیں، اور دودھ کے نام پر جو مرضی پِلاتی رہیں، کسی بڑے سٹور پہ عام استعمال کی چیزیں مثلاً شیونگ کریم، ٹوتھ پیسٹ تک اپنی مرضی کی قیمت پر بیچیں، ٹرانسپورٹر اپنی مرضی کا کرایہ چارج کریں، کسی کے پاس فرصت نہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کسی سیاحتی مقام کا دورہ کر دیکھیں، ہوٹل والے آپ کو کس قیمت پر کیا کھلا دیں، کس قیمت پہ کتنا گندہ کمرہ دے دیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔

آپ گھر بنوانے کا قصد کریں، کنسٹرکشن میٹیریل آپ کو کس قیمت پر ملے یا کنٹریکٹر آپ کو کتنا چونا لگائے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کسی سرکاری دفتر میں معمولی کام سے جائیں، کلرک بابو آپ کو کتنے چکر لگوائے، چاہے تو آپ کی فائل ہی گُم کر دے اور اگر احسان کرے تو جتنا مرضی نذرانہ لے کر کام کرے کوئی پوچھنے والا نہیں، کسی ظلم اور زیادتی کے خلاف تھانے جائیں تھانیدار صاحب الٹا آپ کو چارج شیٹ کر کے بٹھا دیں، وکیل بابو جتنی مرضی فیس اینٹھ لیں اور جس کو مرضی پھینٹی لگا دیں، ڈاکٹر صاحب جتنی چاہے فیس لے کر جتنی مہنگی دوائی لکھ دیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔

کپڑے آپ کو جتنے مہنگے ملیں اور پھر ٹیلر آپ کی جتنی مرضی خدمت کرے، ٹال ٹیکس کے نام پر ایک سڑک پر جتنے مرضی ناکے لگا لئے جائیں۔ جس کا جی چاہے کسی بھی نئے دھندے کو کاروبار کا نام دے کر سڑک کنارے دوکان کھول لے، موٹر سائیکل کے پیچھے ایک چھکڑا لگا کر چاند گاڑی بنا لے یا ایک پھٹا سا لگا کر اس پر پچاس سو فٹ لمبے ٹی آر گاڈر لاد لے، جس کا جی چاہے سڑک کنارے ایک پھٹہ لگا کر تجاوز کر لے یا ریڑھی لگا کر سڑک بلاک کر دے، کوئی رکشے والا کٹ مار کے آپ کی قیمتی گاڑی کا ستیا ناس کر دے اور پھر غربت کی آڑ لے کر آپ کا منہ چڑائے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔

ہر محلے دار اپنے گھر کے سامنے سپیڈ بریکر بنا لے، گلی میں گندا پانی چھوڑ دے یا گلی ہی بند کر دے۔ کوئی پوچھنے والا ہے نہ پوچھنے کی جرات کر سکتا ہے۔ کیونکہ مافیاز کا ایک غول ہے جو ملا کی شکل میں بھی ہے، تاجر اور صحافی کی شکل میں بھی، وکیل اور استاد کی شکل میں بھی اور سیاستدان اور انتظامیہ کی شکل میں بھی۔ ایسے میں کوئی یہ دعویٰ کرے کہ یہ ملک بزرگوں کی دعاؤں کے طفیل چل رہا ہے تو مبالغہ کیسا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).