اصغر خان کیس، سنہ 2012 سے اب تک
پاکستان کی سپریم کورٹ نے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لیے سیاست دانوں میں مبینہ طور پر رقوم کی تقسیم کے معاملے پر سابق ایئر چیف اصغر خان کی درخواست پر فیصلے سے متعلق سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور انٹر سروسز انٹیلیجینس کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کی نظرثانی کی درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے۔
’صرف اپنے آپ کو بچانے کے لیے فوج کو بدنام نہ کریں‘
اصغر خان کیس کے فیصلے کے خلاف درخواست کی سماعت
تفتیش سے کوئی امید نہیں: اصغر خان
اصغر خان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ سنہ 1990 کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق چیئر پرسن بے نظیر بھٹو کی حکومت کو گرانے اور اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لیے فوج نے سابق وزیر اعظم نواز شریف سمیت متعدد سیاست دانوں کو پیسے دیے تھے۔
اصغر خان کیس کے نام سے مشہور اس مقدمے میں اب تک کیا ہوا، اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
سنہ 2012 کا فیصلہ
پاکستان کی سپریم کورٹ نے سیاست دانوں میں 1990 کے انتخابات میں رقوم کی تقسیم کے معاملے میں ایئرمارشل ریٹائرڈ اصغر خان کے مقدمے کا مختصر فیصلہ 19 اکتوبر 2012 کو سنایا تھا۔ اِس فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ انتخابی عمل کو آلودہ کرنا اُس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم مرزا بیگ اور انٹر سروسز انٹیلیجنس ( آئی ایس آئی) کے سربراہ اسد درانی کا انفرادی فعل تھا اور سپریم کورٹ نے عہد کی پاسداری نہ کرنے پر اُن کے خلاف آئین اور قانون کے مطابق کارروائی کا حکم بھی دیا تھا۔
سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم
اپنے مختصر فیصلے میں اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا تھا کہ 1990 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی اور سیاست دانوں میں رقوم تقسیم کی گئی تھیں البتہ جو سیاست دان اُن رقوم سے مستفید ہوئے اُن کی بھی تحقیقات کی جائیں۔
ایوانِ صدر میں سیاسی سیل
اُس وقت تک جو شواہد سامنے آئے تھے اُن کے مطابق ایوانِ صدر میں ایک سیاسی سیل قائم تھا جو پسندیدہ اُمیدواروں اور سیاسی جماعتوں کو مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے رقوم دے رہا تھا۔ اس عمل سے پاکستان کے عوام کو اُن کی پسند کے اُمیدوار منتخب کرنے کے حق سے محروم رکھا گیا۔
قانونی کارروائی کا حکم
•سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اُس وقت کے صدر اپنے عہدے کا پاس نہیں رکھ پائے لہذا اُن کے خلاف بھی آئین و قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔
•وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ذریعے یونس حبیب سمیت اُن سیاست دانوں کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جائے جو اُس رقم سے مستفید ہوئے تھے۔
•اُس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم مرزا بیگ اور انٹر سروسز انٹیلیجنس ( آئی ایس آئی) کے سربراہ اسد درانی کا انفرادی فعل تھا اور سپریم کورٹ نے عہد کی پاسداری نہ کرنے پر اُن کے خلاف آئین اور قانون کے مطابق کارروائی کا حکم بھی دیا تھا۔
آئی ایس آئی اور ایم آئی کا سیاسی کردار
سپریم کورٹ کے حکم میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلیجنس قانون کے مطابق اپنی خدمات انجام دیتے ہوئے سرحدوں کا تحفظ کرسکتی ہیں یا حکومت کو مدد فراہم کر سکتی ہیں لیکن اُن کا سیاسی سرگرمیوں، سیاسی حکومتوں کے قیام یا اُنھیں کمزور کرنے میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی وہ کسی سیاسی جماعت یا گروپ یا انفرادی طور پر کسی سیاست دان کی حمایت کسی بھی انداز میں کر سکتے ہیں جس سے وہ انتخابات میں کامیاب ہو جائے۔
کل رقم کتنی تھی؟
•سپریم کورٹ کے حکم نامے کے مطابق حبیب بینک کے اُس وقت کے سربراہ یونس حبیب نے جنرل اسلم مرزا بیگ اور جنرل اسد درانی کے کہنے پر 14 کروڑ روپے قومی خزانے سے فراہم کیے جن میں سے چھ کروڑ سیاست دانوں میں تقسیم کیے گئے۔ اِس کی بھی نا مکمل تفصیلات فراہم کی گئی تھیں۔
•سپریم کورٹ نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ آٹھ کروڑ کی رقم حبیب بینک کے اکاؤنٹ نمبر 313 میں جمع کرائی گئی ہے جو کہ سرورے اینڈ کنسٹرکشن گروپ کے نام سے موجود ہے اور اس اکاؤنٹ کو ملٹری انٹیلیجنس چلاتی ہے۔ اگروہ رقم حبیب بینک کے کھاتوں میں شامل نہیں کی گئی تو اُسے قومی خزانے میں بمع منافع جمع کرایا جائے۔ تفصیلی فیصلے میں اُن تفصیلات کو شامل کیا گیا جن میں بتایا گیا کہ کس سیاستدان کو کتنی رقم دی گئی۔
کس سیاستدان کو کیا ملا؟
- غلام مصطفی جتوئی: 50 لاکھ روپے
- سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ جام صادق علی: 50 لاکھ روپے
- سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو: 25 لاکھ روپے
- عبدالحفیظ پیرزادہ: 30 لاکھ روپے
- صبغت اللہ پیر پگارا: 20 لاکھ روپے
- مظفر حسین شاہ: 6 لاکھ روپے
- غلام علی نظامانی: 3 لاکھ روپے
- سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم: 2 لاکھ روپے
- ہفت روزہ تکبیر کے چیف ایڈیٹر صلاح الدین: 3 لاکھ روپے
- یوسف ہارون: 5 لاکھ روپے
فوجی افسران اور اداروں کو کتنی رقم ملی؟
- سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم کے بعد باقی ماندہ رقم میں سے
- مرزا اسلم بیگ کی تنظیم فرینڈز: تین کروڑ روپے
- ایم آئی یونٹ پنجاب: دو کروڑ روپے
- ایم آئی یونٹ خیبر پختونخوا: دو کروڑ روپے
- جی ایچ کیو: چار کروڑ روپے
- ایم آئی کوئٹہ آفس: ایک کروڑ 50 لاکھ روپے
- بقیہ رقم سود سمیت جی ایچ کیو بھجوا دی گئی۔
یونس حبیب نے خود کتنی رقم کس کس کو بانٹی؟
- جام صادق علی: سات کروڑ روپے
- ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین: دو کروڑ روپے
- جاوید ہاشمی کے علاوہ دیگر ارکان قومی اسمبلی کو پانچ کروڑ روپے
- میاں نواز شریف: 60 لاکھ روپے (مختلف ادوار میں)
اس مقدمے کی سماعت اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کی تھی جس میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین بھی شامل تھے۔
بینچ نے کہا تھا کہ اِس مقدمے کو نمٹائے جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ 1990 کے عام انتخابات کے تاریخی پس منظر کو دوبارہ لکھا جائے۔
آٹھ نومبر 2012 میں سپریم کورٹ نے اپنا تفصیلی فیصلہ بھی سنا دیا جسے اُس وقت کے سپریم کورٹ کے رجسٹرار ڈاکٹر فقیر حسین نے ایک پُر حجوم پریس کانفرنس میں بیان کیا تھا۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).