جمہوریت اور آئین کی کرشمہ سازیاں


ایک عرصے سے سیاست میرا موضوع نہیں رہا، سماجی معاملات پر لکھتے ہوئے کئی بار سوچاملکی سیاسی امور پر کھل کر لکھوں مگر کوئی نہ کوئی مصروفیت آڑے آتی رہی اور سیاست پر کالم پیچھے ہی جاتے رہے۔ تاہم جو کچھ وطن عزیز میں بنام جمہوریت اور انصاف ہو رہا ہے وہ یقیناًتکلیف دہ ہے۔ ان کے لیے جو دل میں درد رکھتے ہیں، جو محسوس کرتے ہیں کہ جو ہو رہا ہے اس کے ثمرات پاکستان کے سیاسی اور سماجی ڈھانچے کے لیے کسی طوربھی اچھے نہیں ہو ں گے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وطن عزیز کا سماجی ڈھانچہ اس وقت شدید ترین زلزلوں کی لپیٹ میں ہے، جس کی اہم ترین وجہ معاشی عدم استحکام اور نا ہمواریاں ہیں جو سماج، اس کے کردار اور اہمیت کو ختم کرتی چلی جا رہی ہیں۔

گذشتہ ستر برسوں سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام کوسیاست اور جمہوریت کے نام پر جوکچھ وراثت میں ملا ہے انہیںآئینی اور جمہوری تحفظ بھی دیا گیا۔ جیسے ہمارے ہاں مہنگائی کو جمہوری، غربت کو آئینی اور بے روزگاری کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ بیچارے عوام اس جمہوریت، آئین اور قانون کی چکی میں اس بری طرح پس رہے ہیں کہ اچھے اور برے میں تمیز کرنے سے قاصر ہیں۔ اول تو وہ جمہوریت اور آئین کی کردار سے واقف ہی نہیں اور دوسرا انہیں یہ شعور دینے کی کوشش بھی نہیں کی گئی کہ وہ اپنے ووٹ کی اہمیت کو جان سکیں۔

پاکستانی عوام کی نظروں میں جمہوریت کے ثمرات میں مہنگائی، غربت اور ان کی اولادوں (جرائم اور بد امنی ) کو سر فہرست رکھ کر جمہوریت کی اہمیت کو اتنا کم کر دیا گیا کہ وہ باوردی حکومتوں کو خوش آمدید کہتی نظرآتی ہے۔

وطن عزیز میں جمہوریت کے کمزور ہونے کی اہم ترین وجہ پاکستانی شہریوں کا اپنا کردار ہے، میں نے یہاں لفظ قوم اس لیے استعمال نہیں کیا کہ ہم قوم ہیں ہی نہیں۔ ہم ایک ایسے ہجوم کی مانند ہیں جس کی کوئی سوچ نہیں، اور جو اس چرواہے پر بھی اعتبار نہیں کرتی جوانہیں لے کر چل رہا ہے جو ایسی راہ تلاش رہا ہے جو قوم، قومی سوچ اور قومیت کی طرف جاتی ہے۔

اس لیے ہر کوئی اسے آسانی سے بے وقوف بنا لیتا ہے اور اپنا مطلب سیدھا کر کے بیرون ملک فرار ہو جاتا ہے۔ ہم نے دیکھا بھی ہے کہ خواجہ ناظم الدین سے لے کر نواز شریف تک اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے والے عوامی نمائندے یا پھانسی چڑھے، یا قانونی اور آئینی ہتھکنڈوں سے اقتدار سے الگ کر دیے گئے جبکہ دوسری جانب ملک کو سیاسی اور آئینی طور پر نا قابل معافی نقصان پہنچانے والے آمر بیرون ملک چلے گئے، جن کے قتدار کو قانون تحفظ بھی دیتارہا۔ آمریت کو ملنے والا یہ قانونی تحفظ ہی آج جمہوریت کے سبز ے کو کالے میں بدل رہا ہے اور پھر یہ اندیشہ سر اٹھاتا ہوا نظر آ رہا ہے کہ ہماری نسلوں کواپنے بہت سارے حقوق سے دست بردار ہونا پڑے گا۔

پاکستانی جمہوریت کے مقدرمیں طویل مدت تک چھانے والی اماؤس کی لمبی راتوں کا ذمہ دار کون ہے؟ قصور کس کا؟ غیر مستحکم جمہوری اور آئینی اداروں کا، جمہوری روایات سے عاری سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کا یا پھرعوام کا جو حقیقی سیاسی شعور سے نا بلد ہے اور اپنے آئینی حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام ہے۔ عوام کو سیاسی شعور دینے کی ذمہ داری ریاست کی ہے اور اس کا اہم ترین ماخذ تعلیم اور تعلیمی ادارے ہیں، اس کے بعد سیاست دان اور ذرائع ابلاغ جو عوامی شعور کی بیداری کا کام کرتی ہے۔ تعلیم اچھے اور برے میں تمیز سیکھاتی ہے، سیاست دان جمہوریت کا پرچار کرتا ہے اور میڈیا ان دونوں میڈیم کو مزید مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔

مگر پاکستان اور اہل پاکستان کے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ منقسیم اور طبقاتی بنیادوں پر چلنے والا نظام تعلیم اور نصاب، مطلبی اور خود غرض سیاسی قیادت، آئینی اداروں کا غیر جمہوری رویہ اور سیاسی کرداراور پھر میڈیا کا ملکی وقار اور قومی مفادات سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات کو تحفظ دینے والے رویے نے پاکستان میں جمہوریت کا خون کچھ اس طرح سے کیا ملک نہ صرف دو لخت ہوا بلکہ تاحال سیاسی، جمہوری اور معاشی طور پر مستحکم نہیں ہو پا رہا۔

ہر آنے والی حکومت مسائل کو پچھلی حکومت کا غیر آئینی اور غیرجمہوری کردار قرار دے کراپنی مدت پوری کرتے کرتے اسے دوسرے کے کھاتے میں ڈال دیتی ہے جس سے پاکستان میں جمہوریت پروان چڑھے یا نہ چڑھے کرپشن اور بد عنوانی ضرور آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہے۔ گذشتہ ستر سالوں میں ایک عام پاکستانی شہری نے جمہوریت کا جتنا بوجھ اٹھایا ہے اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ تو کیا ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہے گا؟ کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عوام کو طاقت کا حقیقی سر چشمہ کبھی بھی تسلیم نہیں کیا جا ئے گا؟ کیا آئندہ بھی پاکستانی شہریوں کو آئینی غربت اور جمہوری مہنگائی وراثت میں ملے گی؟ حکمران بھی آخر کب تک کئی سال اقتدار میں رہ کر اپنی ناکامیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈالتے رہے گے؟

اب وقت آ گیا ہے کہ اس غیر جمہوری سوچ کو بدلا جائے اور یہ اس ملک کے سیاست دانوں اور شہریوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والوں کو یہ باور کروایا جائے کہ ملکی سیاسی نظام میں جمہوریت کو اس کی صحیح روح کے ساتھ نافذ کیا جا ئے۔ ہر ادارہ آئینی دائرہ کار میں رہ کر کام کرے اور اس حقیقت کو تسلیم کرے کہ وہ آج جو کچھ بھی ہیں وہ اس ملک کے شہریوں کی بدولت ہیں جو مہنگائی اور اپنے نقصان کو برداشت کر کے ان کے نخرے اٹھا رہی ہے۔ بدلے میں اس زمین کے سیاسی اوراقتدار میں بیٹھی اشرافیہ نے خواہ وہ جمہوری ہو یا غیر جمہوری انہیں عدم تحفظ اور مسائل کے سواء کچھ نہیں دیا۔ اس سے پہلے کہ بطور عوام ہم اپنے حکمرانوں اور دیگر آئینی اداروں نو مور کہہ کر ڈو مور کا مطالبہ کر دیں یہ اپنی صفیں درست کر لیں۔ عوامی شعور بیدار ہو گیا تو سب کے لیے مشکل ہو جائے گی اور فرار کی راہ بھی نہیں ملے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).