چھوٹو کا جزیرہ اور چھوٹوں میں گھرا ہوا ملک !


\"ranaغلام رسول چھوٹو کے خلاف آپریشن میں پولیس کی ناکامی کے بعد بالآخر افواج پاکستان کو میدان میں اترنا پڑا۔ اطلاعات کے مطابق چھوٹو اور اس کا گینگ اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکے لیکن بہت سے سوال چھوڑ گئے کہ چھوٹو اتنا طاقتور کیسے بن گیا؟ سوچنے کی بات ہے ایک معمولی سیکورٹی گارڈ اتنے بڑے منظم گروہ کا سرغنہ کیسے بنا جس نے پوری پنجاب پولیس کو آگے لگا لیا۔

حکومت پنجاب کو اس ناکامی پر شرمسار ہونا چاہئے اور قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ وزیراعلی کو تو اپنے طرز حکومت پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنا چاہیے کہ پچھلے 8 سال سے وزیراعلیٰ ہیں، صوبے میں امن و امان آپ قایم  نہیں کر سکے، صحت اور تعلیم کے میدان میں بھی آپ کی کارکردگی صفر ہے، دہشت گردی پر آپ قابو نہیں پا سکے۔ صرف میٹرو بس یا اورینج ٹرین بنانے سے کیا بنیادی مسائل حل ہوجائیں گے۔

پورے صوبے کے وسایل اگر آپ لاہور پر خرچ کریں گے تو اس کا نتیجہ یہی نکلے گا۔ ہر ادارہ آپ نے کھوکھلا کر دیا ہے۔ کہیں بھی کارکردگی نظر نہیں آتی۔ گزشتہ 8 سال سے آپ کی حکومت ایک غنڈے کو پکڑنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے آپ کس منہ سے امن و امان قائم کرنے اور لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کی بات کرتے ہیں۔ برٹش راج سے لے کر آپ کا شریف دور شروع ہونے تک پنجاب پولیس کی کارکردگی زبردست تھی۔ چور اور بدمعاش لوگ اس کے نام سے کانپتے تھے، پنجاب پولیس کا ایک نام تھا، ایک مقام تھا، لوگ اس کی مثالیں دیا کرتے تھے۔ آپ نے جب سے اس ادارے کو سیاسی اور ذاتی مقاصد کے لئے  استعمال کرنا شروع کیا اس کی وقعت ایک ذاتی ملازم کی ہی رہ گئی ہے ، نفری تو ہے لیکن کسی نصب العین کے بغیر کوئی نظم و ضبط نہیں کوئی پیشہ وارانہ تربیت نہیں اور یہ بے ڈھنگی فورس پولیس کے نام پر سیاسی خدمت گاروں کے گروہ کے سوا کچھ نہیں جو تھوڑی بہت پردہ داری تھی وہ چھوٹو گینگ نے اتار دی، دنیا کو تو پنجاب پولیس کی بہادری اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا علم ہوچکا لیکن جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے۔ وزیر قانون رانا ثنااللہ اور وزیراعلیٰ شہباز شریف دونوں ابھی تک شرمسار نہیں، صبح شام پولیس مقابلوں میں ڈاکوؤں اور دہشت گردوں کو ہلاک کرنے والوں کا جب اصلی مقابلہ ہوا تو فاختاؤں کی طرح چھوٹو کے پھندے میں پھنس گئے۔

ان پولیس والوں سے دلی ہمدردی ہے وہ بیچارے کبھی اس کام کے لئے  تیار ہی نہیں کیے گیے۔ خدا کا شکر ہے کہ  اغوا ہونے والے پولیس کے اہلکار باحفاظت بازیاب ہو گئے۔ پاکستان کی مقتدرقوتوں کو اب یہ احساس ہوجانا چاہیے کہ اقتدار کا مقصد صرف اور صرف عوام کی خدمت کرنا ہے خواہ ان کا تعلق کسی بھی سیاسی پارٹی کے ساتھ ہو۔ پولیس کو سیاست سے الگ کرنا ہوگا کوئی بھی پولیس افسر ہو، اس کی کسی بھی علاقے میں تعیناتی کم از کم 3 سال کے لئے  ہونی چاہیے تاکہ کوئی بھی ایم پی اے یا ایم این اے یا وزیر اسے پوسٹنگ کے نام پر بلیک میل نہ کرسکے۔ پنجاب پولیس کو اور پورے پاکستان کی پولیس کو سیاسی اثر و نفوذ سے آزاد ہونا چاہیے۔ پولیس کا کام لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہے اور یقیناً وہ بہترین کارکردگی دکھا سکتی ہے بشرطیکہ وہ سیاسی غلامی سے نکل جائے۔

لمحہ فکریہ ہے کہ اب افواج پاکستان کو ڈاکوؤں کے مقابلے پر بھی آنا پڑا۔ بہت زعم تھا وزیراعلی اور وزیر قانون کو کہ ہمارے صوبے میں سب اچھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے دہشت گردوں کے کے ساتھ سیاسی اتحاد کررکھا ہے اور یہ نہیں چاہتے کے ان کا بھرم کھل جائے ورنہ داخلی سلامتی کی قلعی تو اب عالم پر آشکار ہوچکی ہے۔ کیسے 200 افراد نے 1600 پولیس والوں کو بھیڑ بنائے رکھا۔ ایسی نا اہلی حکومت کے جواز پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

اس آپریشن کے ذمہ داروں بشمول انسپکٹر جنرل پولیس، وزیر قانون اور وزیراعلی پنجاب، سب کا احتساب ہونا چاہیے تا کہ ان کے منصب کی کچھ عزت رہ جائے۔ پاکستان اس وقت داخلی سلامتی کے بحران کا شکار ہے ملک کے طول و عرض میں ان چھوٹے چھوٹے چھوٹووں نے لوگوں کی زندگی اجیرن کردی ہے، کہیں مذہب کے نام پر دہشت گردی ہے، عقیدے کو بنیاد بنا کر انسانوں کو قتل کیا جارہا ہے تو کہیں سیاسی اور لسانی وجوہات کی بنا پر لوگوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بھتہ خوری اور غنڈہ گردی عام ہے، جرائم میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے، کسی کی بھی عزت محفوظ نہیں اور نہ تو کوئی سننے والا ہے اور نہ کوئی جائے پناہ ہے۔ بحیثیت مجموعی معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔ صورت حال فوری اقدامات کی متقاضی ہے تاکہ داخلی خلفشار کے شکار ملک کو سنبھالا جا سکے اور شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

رانا امتیاز احمد خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

رانا امتیاز احمد خان

رانا امتیاز احمد خاں جاپان کے ایک کاروباری ادارے کے متحدہ عرب امارات میں سربراہ ہیں۔ 1985 سے کاروباری مصروفیات کی وجہ سے جاپان اور کیلے فورنیا میں مقیم رہے ہیں۔ تاہم بحر پیمائی۔ صحرا نوردی اور کوچہ گردی کی ہنگامہ خیز مصروفیات کے باوجود انہوں نے اردو ادب، شاعری اور موسیقی کے ساتھ تعلق برقرار رکھا ہے۔ انہیں معیشت، بین الاقوامی تعلقات اور تازہ ترین حالات پر قلم اٹھانا مرغوب ہے

rana-imtiaz-khan has 22 posts and counting.See all posts by rana-imtiaz-khan

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments