جوہری سمجھوتہ سے امریکا کی علیحدگی کے بعد ایران کیا کر سکتا ہے؟


 ایران کے جوہری سمجھوتہ سے قطع تعلق کے بارے میں صدر ٹرمپ کے اعلان نے جہاں ایک طرف اسرائیل اور ایران مخالف عرب ممالک کو طمانیت سے سر شار کیا ہے وہاں ایران میں اعتدال پسند صدر حسن روحانی کے شدت پسند مخالفین کو بھی شادمانی بخشی ہے ۔ سخت گیر اراکین نے مجلس (ایرانی پارلیمنٹ) میں امریکا کے پرچم کے ساتھ جوہری سمجھوتہ کو بھی نذر آتش کر کے خوشی کا اظہار کیا ہے۔

اُدھر اسرائیل کے وزیر اعظم نتین یاہو نے ٹرمپ کے فیصلہ کو دلیرانہ فیصلہ قرار دیا ہے اور دعوی کیا ہے کہ بیشتر عرب ممالک بھی ٹر مپ کے اس فیصلہ پر اسرائیل کے ساتھ شادمان ہیں۔

ٹرمپ کے اس فیصلہ پر اگرکوئی ناراض ہے تووہ امریکا کے اتحادی ، فرانس، جرمنی اور برطانیہ ہیں اور ان کے ساتھ روس اور چین بھی ایک صفحہ پر ہیں۔

یورپ کی ناراضگی کی دو وجوہات ہیں ۔ اول ایران کے جوہری سمجھوتہ کی بدولت ، ایران کے جوہری اسلحہ کی تیاری کا امکان یکسر ختم ہوگیا ہے اور اس کی منسوخی کے بعد کیا حالات ہوں اس کے بارے میں اس وقت کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ دوم ، جوہری سمجھوتہ کے نتیجہ میں ایران پر اقتصادی پابندیوں کے خاتمہ کے بعد ایران میں سرمایہ کاری اور ایران کے ساتھ تجارت کے جو وسیع راستے کھلے تھے ان کے بند ہوجانے کا خطرہ ہے۔ یور پ کا استدلال ہے کہ اس وقت جب کہ ایران ، جوہری سمجھوتہ پر پوری طرح سے عمل کر رہا ہے اور بین الاقوامی جوہری توانائی کے نگراں ادارے IAEAاور خود امریکا کے انٹیلی جنس اداروں نے اس کی تصدیق کی ہے کہ ایران جوہری سمجھوتہ پر پوری طرح سے کاربند ہے ، اس سمجھوتہ سے قطع تعلق کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ پھر بین الاقامی معاہدوں کے سلسلہ میں امریکا کاا عتبار متزلزل ہوگیا ہے اور شمالی کوریا جس سے امریا جوہری اسلحہ ترک کرنے کے معاہدے کا خواہاں ہے ، یہ کہہ سکتا ہے کہ کیا ضمانت ہے کہ جو معاہدہ کیا جائے ، اس پر امریکابرقرار رہے گا۔

اس میں کسی کو شک و شبہ نہیں کہ ٹرمپ، ایران کا جوہری سمجھوتہ منسوخ کر کے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران ایران کے جوہری سمجھوتہ کو منسوخ کرنے کاجو وعدہ کیا تھا وہ اس کو پورا کرکے دکھا رہے ہیں۔ دوم ٹرمپ ، امریکا کے سیاہ فام صدر اوباما کی تمام کامیابیوں کو منسوخ کرکے ان پر کالک ملنا چاہتے ہیں ۔ کوئی کچھہ بھی کہے یہ ٹرمپ کی نسل پرستی کا مظہر ہے۔

اب ساری دنیا کی نظریں ایران کی جانب ہیں کہ وہ کیا اقدام کرتا ہے؟ بلا شبہ ایران نے اپنی گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالنے کے لئے 2015 میں جوہری سمجھوتہ کر کے اپنے جوہری پروگرام کی قربانی دی تھی اور اب اقتصادی پابندیوںکے بارے میں ٹرمپ کے اعلان کے بعد ایران کی معیشت دگرگوں ہوگی کیونکہ جو ملک بھی ایران سے تجارت اور مالی لین دین کرے گا وہ امریکا کی پابندی کا نشانہ بنے گا۔ امریکا کی اقتصادی پابندیوں کے لئے جواز صرف ایران کے جوہری پروگرام میں مدد کا نہیں ہوگا بلکہ مشرق وسطی میں ایران کے اثر اور ایران کی کارروائیوں میں اعانت کا الزام پابندی عاید کرنے کے لئے کافی ہوگا۔

ٹرمپ کے اعلان سے پہلے، ایران کے رہبر اعلی علی خامنہ ای نے صدر روحانی کے نام کھلے خط میں کہا تھا کہ اگر امریکا سمجھوتہ کو پھاڑتا ہے تو ہمیں اسے آگ میں جھونک دینا چاہئے۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ نے جوہری سمجھوتہ منسوخ کرکے ایران میں صدر روحانی کے سخت گیر مخالفین اور معیشت کی بدحالی سے ستائے ہوئے عوام کو حکومت کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی ہے۔ انہیں توقع ہے کہ جس طرح اس سال کے اوایل میں ایران کے کئی شہروں میں حکومت کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے اسی طرح اقتصادی پابندیوں سے پیدا ہونے والی مشکلات عوام کو سڑکوں پر لے آئیں گی اور ممکن ہے حکومت کی تبدیلی کی بارے میں واشنگٹن ، تل ابیب اور ریاض کی امیدیں بر آئیں۔

ان حالات میں ایران کے لئے ایک راہ تو یہ ہے کہ جوہری سمجھوتہ کی دفعہ 36 کے تحت وہ مشترکہ کمیشن کے سامنے امریکا کے خلاف شکایت لے جائے۔ مشترکہ کمیشن، چین، فرانس، جرمنی، روس، برطانیہ اور امریکا کے نمایندوں پر مشتمل ہے۔ اگر یہ اقدام کار گر ثابت نہ ہوا تو ایران یہ معاملہ اقوم متحدہ کی سلامتی کاونسل کے سامنے پیش کر سکتا ہے لیکن وہاں امریکا کے ویٹو کا مگر مچھ منہ کھولے بیٹھا ہے۔

ایران کے سامنے یہ راستہ بھی ہے کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کے ایک عنصر پر دوبارہ عمل شروع کر دے۔ ویسے بھی ٹرمپ کے اعلان کے فورا بعد صدر روحانی نے ایران کے جوہری توانائی کے ادارے کو ہدایت کی ہے کہ وہ صنعتی پیمانے پر جوہری افزودگی کا پروگرام دوبارہ شروع کر دے۔ لیکن ایران کے اس اقدام پر یورپ کی ناراضگی کا خطرہ ہے اور اس وقت ایران کو یورپ کی حمایت سے جو تقویت حاصل ہے وہ اس سے یکسر محروم ہوجائے۔

ایک راہ ، ایران کے لئے یہ بھی ہے کہ وہ جوہری پھیلاو کو روکنے کے معاہدہ  NPTسے الگ ہوجائے لیکن 2005 سے 2015 تک ایران جب سنگین اقتصادی پابندیوں کا شکار تھا اس وقت بھی ایران نے یہ راہ اختیار نہیں کی تھی۔

ایک راہ ایران کے لئے یہ ہے کہ وہ اپنے مزایل کے پروگرام کو تیزی سے فروغ دے ۔ گو امریکا، اسرائیل اور اس کے حلیف اس کے سخت خلاف ہیں لیکن یہ نہ تو جوہری سمجھوتہ کی خلاف ورزی ہوگی اور نہ اقوام متحدہ کی سلامتی کاونسل کی کسی قرارداد کی ۔ بیشتر مبصریں کے نزدیک یہی راہ ، امریکا کو اسی طرح سے بات چیت کی میز پر لانے میں کارگر ثابت ہوگی جس طرح شمالی کوریا نے اپنے جوہری اور مزائیل کے پروگرام کو فروغ دے کر امریکا کو بات چیت پر مجبور کیا ہے۔

اقتصادی ماہرین کی رائے ہے کہ اس وقت ایران کے لئے دانشمندی یہ ہوگی کہ وہ اپنی معیشت کو مضبوط اور مستحکم کرنے کو ترجیع دے اور کوئی ایسا قدم نہ اٹھائے جس پر امریکا کو بھڑکنے کا موقع ملے یا یورپ ناراض ہو۔ اس وقت ایران کوچاہئے کہ وہ اپنے تیل کی برآمد کو بڑھاوا دے۔ اقتصادی پابندیوں کے خاتمہ کے بعد ایران کے تیل کی برآمد میں دو گنا اضافہ ہوا ہے اور اب یہ برآمد 26لاکھ بیرل یومیہ تک پہنچ گئی ہے۔ تیل کی برآمد میں یہ اضافہ در اصل یورپ کے تیل صاف کرنے کے کارخانوں کی طلب میں اضافہ کی بنا پر ہوا ہے۔

لیکن اس وقت سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ امریکا، اسرائیل اور اس کے ساتھی عرب ممالک ایران کی موجودہ حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے فوج کشی کا ہر بہانہ تلاش کرنے کی کوشش میں ہیں۔امریکا اور اس کے حلیفوں کو شام میں پچھلے سات سال سے بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے میں ناکامی پر جھنجھلاہٹ تو تھی ہی لیکن اب لبنان کے عام انتخابات میں ایران نواز، حزب اللہ کی کامیابی نے انہیں دیوانہ بنا دیا ہے اور دیوانگی کے اس عالم میں سب کچھ ہو سکتا ہے۔

آصف جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

آصف جیلانی

آصف جیلانی لندن میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے صحافتی کرئیر کا آغاز امروز کراچی سے کیا۔ 1959ء سے 1965ء تک دہلی میں روزنامہ جنگ کے نمائندہ رہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید بھی کیا گیا۔ 1973ء سے 1983ء تک یہ روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر رہے۔ اس کے بعد بی بی سی اردو سے منسلک ہو گئے اور 2010ء تک وہاں بطور پروڈیوسر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اب یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کالم نگاری کر رہے ہیں۔ آصف جیلانی کو International Who’s Who میں یوکے میں اردو صحافت کا رہبر اول قرار دیا گیا ہے۔

asif-jilani has 36 posts and counting.See all posts by asif-jilani