خان صاحب ، کراچی میں ناکام جلسے کی پیشگی مبارک باد


صاحبو، پی ٹی آئی 12 مئی کو کراچی میں ایک ناکام جلسہ کرنے جارہی ہے۔

مستقبل بینی کی صلاحیتوں سے محرومی کے باوجود یہ وہ دعویٰ ہے، جو فقیر اعتماد سے کر سکتا ہے کہ یہ سورج کی طرح عیاں ہے۔اس کے لیے راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔

ناکام جلسے کی پیش گوئی کے لیے آپ کو فقط ماضی میں جھانکنا ہوگا۔ 2013 کے بعد کے برسوں پر نگاہ جمائیں جب شہر قائد سے ساڑھے آٹھ لاکھ وو ٹ لینے والی پی ٹی آئی نے تواتر کے ساتھ شہر میں ٹُھس جلسے کے۔ ایک سے بڑھ کر ایک۔ مایوس کن۔ بات جلسی تک آگئی، اور پھر کارنر میٹنگز تک۔

قیامت کی نشانی تھی۔ خان آتا، نہ تو سڑک بند ہوتی، نہ ہی شور مچتا، نہ ہی مجمع لگتا، اور چلا جاتا۔

اِس جلسے کے اعلان سے قبل 29 اپریل کو لاہور میں میگا پاور شو ہوا، جسے سبوتاژ کرنے میں رانا ثنا اللہ کا ٹھمکتا بیان بھی کام نہ آیا۔ یاد رہے، 2012 میں بھی پی ٹی آئی نے پنجاب میں ایک حیران کن جلسہ کیا تھا۔ اور پھر کراچی میں مزار قائد پر ایسا رنگ جمایا کہ جواب دینے کو اسی مقام پرالطاف بھائی نے خواتین کا جلسہ کیا۔ (اب تو خیر ”رہنما نہیں، منزل چاہیے“کا نعرہ لگ چکا ، اور بہنیں سینیٹ انتخابات میں ووٹ فروخت کر چکیں: قیامت کی ایک اور نشانی)

تو اس بار بھی پی ٹی آئی لاہور میں دھوم مچانے کے بعد کراچی میں دھماکا کرنا چاہتی تھی، مگر یہ پٹاخا پھس ہوچکا۔ اب یہ ممکن نہیں پیارے۔ گذشتہ پانچ برس میں یہ جماعت کچرے تلے دبے کراچی میں اپنی آن بان شان کھو چکی، جس کی ایک وجہ خان کی توجہ کا پنجاب پر اٹک جانا ہے، اور دوسرا سبب ہے ،کراچی کی پی ٹی آئی قیادت، جو ”ڈیلیوری“ میں ناکام رہی۔ عارف علوی سے علی زیدی تک، سب نے عوام کو مایوس کیا۔ عمران اسماعیل کا مائیک تھامے گائیکی کے میدان میں قدم رکھنا بھی معاون ثابت نہ ہوا۔ اور فیصل واڈا کا شارع فیصل پر عوام کے لیے ایک اذیت ناک جلسہ اس مایوسی میں خاطرخواہ اضافے کا سبب بنا۔

قصہ مختصر، پی ٹی آئی کی کراچی قیادت دراصل بنی گالہ میں رہتی رہی!

اس قیادت کا تازہ کارنامہ 12 مئی کے جلسے سے پہلے ہونے والے چٹ پٹے واقعات ہیں، جن کے ماتھے پر جلسے کی شکست تحریر ہے۔

پہلے پہل مزار قائد پر جلسے کا اعلان کیا گیا تھا، مگر پھر مقام تبدیل ہوگیا۔ مگر کیوں؟ یاد کرو، خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا، مینار پاکستان پر جلسے سے متعلق ،اس کے رقبے کے باعث، پارٹی متذبذب تھی۔ جب پنجاب کی سیاست کرنے والے پارٹی کے ارکان لاہور میں پراعتماد نہیں تھے، تو کراچی میں خاک ہوتے، جہاں ضمنی اور بلدیاتی انتخابات میں ہول ناک ناکامیوں کا سامنا رہا ۔ (عامر لیاقت کی شمولیت بھی اِن ہی ناکامیوں کا تسلسل ہے)

شاید اسی تذبذب کے باعث جگہ تبدیل ہوئی۔اب نظر انتخاب حکیم سعید گراﺅنڈ ٹھہرتا ہے، جہاں پی پی پی جلسے کا نہ صرف اعلان کر چکی تھی، بلکہ اجازت بھی لے اڑی تھی۔اب جیالوں کو اجازت کیسے نہ ملتی، بھٹو زندہ ہے، پھر حکومت ان کی۔ مگر جنونیوں کو کون سمجھائے، جو وہاں ڈیرا ڈال کے بیٹھ گئے، اور بیانات داغنے لگے۔

پھر جو کچھ ہوا، سب نے دیکھا۔ تصادم، پتھراﺅ، گالی گلوچ، دنگا، گاڑیاں نذر آتش۔ (وہ مکروہ مناظر، جو کراچی پہلے بھی دیکھ چکا ) اگلے روز پی ٹی آئی کو ایک اور شکست ہوئی، جب خان سے چھوٹے بلاول نے بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئے حکیم سعید گراﺅنڈ سے دست بردار ہو کر پی ٹی آئی کو ادھر جلسے کی پیش کش کر دی۔

الغرض 12 مئی کے جلسے سے پہلے ہمیں جتنی تصاویر دست یاب ہیں، ان میں جلسے کی ناکامی کے اشارے حرکت کرتے ہیں۔ کراچی میں دس ہزار افراد اکٹھے کرنا اس وقت ایک ناممکن خواب ہے۔

درویش کی ایک اور پیش گوئی: تابوت کی آخری کیل خود عمران خان ثابت ہوں گے، جو اس میگا سٹی کو، معاشی حب کو، ڈھائی کروڑ کے شہر کو،جس کے پاس قومی اسمبلی کی 21 سیٹیں ، جلسے والے دن درشن کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

کراچی نے 2013 میں پی ٹی آئی کے نمائندوں کو نہیں، عمران خان کو ووٹ دیا تھا۔ انھیں تو یہ بھی خبر نہیں تھی کہ وہ جس امیدوار کے بلے پرمہر لگا رہے ہیں،اس کا نام کیا ہے۔ خان کو کراچی کے ان ووٹرز کے جذبہ کا احترام کرنا چاہیے تھا،گو یہ بقول عمران خان خوں آشام لبرل ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ جلسے سے کچھ روز قبل ادھر آتے، لوگوں سے ملتے، پس ماندہ علاقوں میں جاتے، مہم چلاتے، ماحول گرماتے، مگرانھوں نے معاملات عارف علوی، علی زیدی، فیصل واوڈا اور عامر لیاقت پر چھوڑ دیے، اور اس فقیر کو جلسے سے قبل ہی اس کی ناکامی کی مبارک باد دینے کا موقع فراہم کیا۔ شکریہ عمران خان۔

یاد رہے، پی ٹی آئی کا مقابلہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی ٹنکی گراﺅنڈ کی نوٹنکی سے نہیں، اس کا مقابلہ خود سے ہے۔ اس جلسے سے، جو انھوں نے 2013 میں کیا تھا۔

اگر 12 مئی کو پی ٹی آئی اس کا ایک چوتھائی بھی کر پائی، تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).