اسلامی ریاست، ذمی اور سیکولر حضرات کی غلط فمہیاں


سعدی جان

\"saadi\"

ہمارے محترم جناب عاصم بخشی صاحب نے معروف مفکر محمد اسد اور ان کے بیٹے طلال اسد کا ایک فکری مکالمہ نقل کیا ہے، جس میں دیگر مباحث کے ساتھ اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کا ایشو بھی ذکر کیا گیا ہے، مکالمے کے اس حصے میں اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں کے بارے میں وہی ’غلطی ہائے مضامین‘ دہرائی گئی ہیں جنہیں یورپی مصنفین صدیوں سے دھرا رہے ہیں۔ محمد اسد صاحب کا اخلاص اپنی جگہ، لیکن مسلم سیاسی فقہ کا وسیع اور گہرا مطالعہ نہ رکھنے کی جو وجہ سے اس مکالمے میں کچھ ٹھوکریں کھائی ہیں، جن سے ان کے بیٹے شبہات کا شکار ہوگئے، ہم اس مضمون میں اس مسئلے کے کچھ پہلوؤں پر ایک نگاہ ڈالیں گے :

اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہری ریاست کے وہ ’خصوصی‘ اور ’وی آئی پی‘ شہری ہیں، جن کی خصوصیت، اہمیت اور حساسیت کی بنا پر اسلام نے انہیں ایک الگ معزز نام الاٹ کیا ہے، یعنی ذمی۔ ذمی اور اہل الذمہ کا آسان مفہوم ہے کہ ریاست کے وہ شہری، جن کے جان، مال اور دین کی حفاظت ریاست کی خصوصی ذمہ داری ہے۔ ویسے تو ریاست تمام شہریوں کی حفاظت اور امن کی ضامن ہے، لیکن غیر مسلم شہریوں کا نام ’ریاست کے محفوظ ترین شہری ’رکھ کر اس طرف اشارہ کیا کہ اس طبقے کی حفاظت کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ یہ ایک لمحے کے لیے بھی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے۔ طرفہ تماشا یہ کہ جو نام ریاست کے وہی آئی پی شہری ہونے کی دلیل تھا، خلط مبحث سے یا غلط فہمی سے اسے ’دوسرے درجے کے شہری‘ ہونے کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ ذرا سوچیں آج اگر پاکستان میں کسی طبقے کا نام ’ریاست کے محفوظ ترین شہری‘ رکھ دیا جائے، تو اس سے ان کی اہمیت، عظمت، خصوصیت مترشح ہوگی یا ان کے مقام و مرتبہ کا کمتر ہونا معلوم ہوگا؟ یا للعجب۔

دوسری بات یہ کہ اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہری بھی مسلم شہریوں کی طرح مکمل حقوق کے حامل شہری ہوتے ہیں، جو آج کی جدید دنیا میں شہریت کے لوازم سمجھے جاتے ہیں مثلاً :

1۔ غیر مسلم شہریوں کی جان اور ان کا مال ایک مسلمان کی طرح مکمل قانوناً محفوظ ہوتا ہے ۔

2۔ غیر مسلم شہری اپنے دین پر ایک مسلمان کی طرح مکمل آزادانہ طور پر عمل کر سکتا ہے، اپنے مذہبی رسوم و عادات پر عمل پیرا ہوسکتا ہے، بلکہ ان احکام پر بھی عمل کر سکتا ہے جو اسلام میں حرام ہے، جیسے شراب پینا، خنزیر کھانا وغیرہ۔ اگرچہ اس میں وہ امور شامل نہیں ہیں، جن کا پورے معاشرے پر اثر ہوتا ہے جیسے سود (کیا آج کی جدید دنیا اس فیاضی کی مثال لا سکتی ہے کہ یورپی ممالک میں جو چیز قانوناً منع ہے، اور وہ چیز اسلام میں جائز ہو، تو یورپی ممالک اس کی اجازت مسلم شہریوں کو دے؟ لبرلز سے ایک سوال؟

3۔ غیر مسلم شہری اپنے عائلی معاملات مکمل طور پر اپنے دین کے مطابق سر انجام دے سکتے ہیں، اور ان معاملات میں جھگڑوں کی صورت میں فیصلے بھی ان کے مذہب کے مطابق ہوں گے۔

4۔ غیر مسلم شہری بازار و مارکیٹ میں مسلمانوں کی طرح آزادانہ تجارت کر سکیں گے اور ہر وہ چیز بیچ سکیں گے جو ان کے دین میں حلال ہے، خواہ اسلام کی نظر میں حرام ہو، جیسے شراب و خنزیر وغیرہ

5۔ غیر مسلم شہری مسلمان شہریوں کی طرح حکومتی عہدوں پر فائز ہوسکیں گے، البتہ وہ عہدے جن کا تعلق خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ ہے، وہ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوں گے، جیسے امامت، موذن، قاضی (البتہ غیر مسلم شہریوں کا الگ قاضی بنانے میں کوئی حرج نہیں ) وغیرہ، مجھے تعجب ہے کہ محمد اسد جیسے مفکر نے اپنے بیٹے کو مکالمے میں کہا ہے کہ غیر مسلم شہری اسلامی ریاست میں عہدوں پر فائز نہیں ہوسکیں گے۔ کیا محمد اسد صاحب نے تاریخ میں نہیں پڑھا تھا کہ حضرت امیر معاویہ کے عہد میں ابن آثال حمص کا فنانشل کمشنر اور وہاں کا حاکم تھا، عبد الملک بن مروان کے دور میں اس کا چیف سیکرٹری ابن سرجون عیسائی تھا، حجاج بن یوسف کے شعبہ خراج کا میر منشی فرخ زاد آتش پرست تھا، پوری دولت عباسیہ کا چیف کاتب ابو اسحاق صابی تھا، ہارون الرشید کا خصوصی سیکرٹری جبریل بن بختیشوع عیسائی تھا، سلطنت دیلم کے شہنشاہ کا وزیر اعظم نصر بن ہارون عیسائی تھا، سلطنت مغلیہ میں پنج ہزاری اور چار ہزاری عہدوں پر متعدد ہندو اور سکھ براجمان تھے، یہ چند نام پچھلی صدی کے نامور مورخ علامہ شبلی کے ایک مقالے سے لیے گئے ہیں۔ ورنہ تاریخ کی ورق گردانی کی جائے اور اس میں اسلامی اندلس کو شامل کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب ان غیر مسلم شہریوں کے ناموں پر تیار ہوسکتی ہے جو اسلامی ریاستوں میں مختلف عہدوں پر فائز کیے گئے ۔

6۔ غیر مسلم شہری کو اسلامی ریاست میں خصوصی امتیاز یہ حاصل ہے کہ ان کو کسی بھی صورتحال میں فوج میں شامل کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا خواہ تمام مملکت کے شہریوں کو نفیر عام کا حکم دیا جائے۔ البتہ اگر وہ اپنی خوشی سے فوج میں شامل ہونا چاہتا ہے تو ٹھیک، اس صورت میں اس کا جزیہ مکمل طور پر معاف ہوگا ۔

7۔ غیر مسلم شہری کو ایک امتیاز یہ حاصل ہے کہ جس دن وہ فوت ہو جائے، اس کے پچھلے تمام واجب الادا ٹیکس معاف ہوں گے۔ یہ خصوصیت اسلامی ریاست کے کسی مسلم شہری کو حاصل نہیں ہے ۔

8۔ غیر مسلم اپنی الگ عدالتیں قائم کرنے کے مکمل مجاز ہیں، ان عدالتوں کی تنخواہیں بھی بیت المال سے ادا ہوں گی، بنو عباس کے دور میں اس قسم کی عدالتوں کا وجود بھی ملتا ہے ۔

9۔ غیر مسلم شہری آزادانہ گرجے اور معبد خانے بنا سکتے ہیں، البتہ جس علاقے میں تمام لوگ ہی مسلمان ہوں، غیر مسلم شہری ہی نہ ہوں، تو وہاں حکومت مداخلت کر سکتی ہے۔ لیکن یہ بھی حکومت وقت کے سپرد ہے اور حالات و واقعات کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔ کوئی متعین اور دو ٹوک ضابطہ نہیں ہے۔ نیز ان معبد خانوں کے پنڈت، پادری، پروہت یعنی ان کے مذہبی زعماء ٹیکس سے مکمل مستثنیٰ ہوں گے ۔خواہ ان کے پاس سونے و جواہرات کے ڈھیر کیوں نہ لگ جائیں ۔

10۔ جن حضرات کو مسلم فقہ السیاسۃ کا مطالعہ ہے وہ جانتے ہیں کہ اسلامی ریاست میں شہریت کی بنیاد پر کسی قسم کی تقسیم کا کوئی تصور نہیں ہے۔ فقہاء نے غیر مسلم شہریوں کے بارے میں ضابطہ لکھا ہے کہ ’الذمی من دار اہل الاسلام‘ کہ ذمی اسلامی ریاست کے شہریوں میں سے ہیں۔ اسلامی ریاست میں یا تو شہری ہوگا یا نہیں۔ یہاں نو آبادیاتی نظام اور جدید استعمار کی طرح ریاست کے شہریوں میں کوئی طبقاتی تقسیم اور درجہ بندی نہیں ہوتی۔ معلوم نہیں کس نص قرآنی، کس حدیث مبارکہ اور غیر مسلم شہریوں کے بارے میں فقہ اسلامی کے کن قواعد و ضوابط سے بعض حضرات نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ غیر مسلم شہری اسلامی ریاست کے دوسرے درجے کا شہری ہوتا ہے۔ سچ یہ کہ اسلامی ریاست نے غیر مسلم شہریوں کو وہ حقوق اور وہ مقام دیا ہے کہ علامہ شبلی کے بقول یورپ کو اس بے تعصبی اور فیاضی تک پہنچنے کے لیے ابھی کئی سو برس درکار ہیں۔ علامہ شبلی کی بات بالکل درست ہے۔ ہندوستان اور یورپ کے مسلم شہریوں کو آج کے ترقی یافتہ دور میں صرف اپنے عائلی معاملات میں جس قسم کی مشکلات کا سامنا ہے، وہ مخفی نہیں۔ یقین نہیں آتا، تو انڈیا کے مسلمانوں کی ’مسلم پرسنل لاء بورڈ‘کی تاریخ کھنگال کر دیکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
14 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments