کیا نیب چئیرمین کو مقدس گائے کا درجہ حاصل ہے؟


عذر گناہ بد تر از گناہ کے مصداق نیب کے چئیر مین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے نواز شریف کے خلاف 5 ارب ڈالر کے لگ بھگ رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے بھارت بھیجنے کے معاملہ کی تحقیقات کا اعلان کرنے کے بعد اب اس بات پر اصرار کیا ہے کہ نہ تو انہیں شرمندگی ہے اور نہ ہی اپنی غلطی ماننے کی ضرورت ۔۔۔ بلکہ انہوں نے یاد دلایا ہے کہ اب وقت بدل چکا ہے اور اس ملک میں کوئی ایسا نہیں ہے جسے اپنے کارناموں کا جواب نہ دینا پڑا۔ پشاور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے منگل کو نیب کی طرف سے جاری ہونے والی پریس ریلیز پر براہ راست تو تبصرہ نہیں کیا لیکن یہ واضح کیا کہ نیب بدعنوانی کے خلاف کام کرنے والا قومی ادارہ ہے اور جب تک وہ اس کے سربراہ ہیں، اسے یہ کام کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

 نیب چئیر مین کا یہ جواب دو روز تک پاکستان میٖڈیا میں ہونے والے مباحث اور قومی اسمبلی میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی شدید ناراضگی اور اس مطالبہ کے بعد سامنے آیا ہے کہ نیب چئیر مین کے طریقہ کار اور جھوٹی خبر کی بنیاد پر  ملک کے ایک اہم لیڈر کا نام لے کر جھوٹے پروپیگنڈا کا آغاز کرنے کے معاملہ کی پارلیمانی تحقیقات کی جائیں۔ تاہم جسٹس (ر) جاوید اقبال کی طرف سے اس بارے میں اپنی غلطی پر اصرار کے رویہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ساری زندگی اعلیٰ عدلیہ میں جج کے عہدہ پر کام کرنے کے بعد اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ غلطی پر اصرار کسی کو درست یا عظیم ثابت نہیں کر سکتا بلکہ اس سے اس ادارے کی ساکھ کو ہی نقصان پہنچتا ہے جس کی وہ سربراہی کر رہے ہیں۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی یہ بات تو درست ہے کہ ملک میں کوئی بھی قانون سے بالا نہیں ہونا چاہئے اور ہر کسی کو قومی وسائل کے حوالے سے سوالوں کا جواب دینا چاہئے۔ اسی دعویٰ کی روشنی میں پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا اس کا اطلاق خود نیب اور اس کے سربراہ پر بھی ہو تا ہے یا وہ خود کو ’مقدس گائے‘ سمجھتے ہوئے دوسروں پر کیچڑ اچھالنے اور ملک کے سیاسی ماحول کو آلودہ کرنے میں مصروف رہیں گے۔

نیب کے بے بنیاد الزام اور چئیر مین نیب کی طرف سے اپنے طریقہ کار اور غلطی کا اعتراف کرنے کی بجائے اس بات پر اصرار کہ شور مچانے والے وہ لوگ ہیں جو خود کو قانون سے بالا سمجھتے رہے ہیں اور اب انہیں سوالوں کے جواب دینا پڑے ہیں تو وہ بد حواس ہیں ۔۔۔ اس کے بعد سابق وزیر اعظم نواز شریف کے اس مطالبہ کو جائز اور ضروری کہا جا سکتا ہے کہ چئیر مین نیب اپنی نااہلی کا اعتراف کرکے قوم سے معافی مانگیں یا اپنے عہدے سے استعفیٰ دیں۔ غلطی کرنے کے بعد اس کی اصلاح کرلینا کوئی برائی نہیں ہے لیکن اگر کوئی فرد یا ادارہ غلطی کی واضح نشاندہی کے بعد بھی خود کو درست اور زبان خلق کو غلط قرار دے کر وضاحتیں دیتے ہوئے اپنی بے بنیاد بات پر اصرار کرے تو اسے ناقابل اصلاح ہی سمجھنا پڑے گا۔ نیب کے بزعم خویش خود مختار چئیرمین کا طرز عمل اسی مزاج کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس لئے انہیں استعفیٰ دے کر اس ادارے کا بوجھ کم کرنا چاہئے، جسے وہ اس قوم کی لوٹی ہوئی دولت کی واپس لانے کے لئے استعمال کرنے کے جوش میں اس کی خود مختاری اور نیک نیتی کو مشکوک کرنے کا سبب بنے ہیں۔ نیب کو سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے وقت سے سیاسی لیڈروں کے خلاف ہتھکنڈے کے طور پراستعمال کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں پرویز مشرف کے بعد ایک کے بعد دوسری منتخب سول حکومت اپنی مدت پوری کر رہی ہے لیکن منتخب پارلیمنٹ بھی اس ادارے کی اصلاح کرنے یا اس اسے خالص قومی مقصد کے لئے استعمال کرنے کے لئے واضح اور رہنما اصول متعین کرتے ہوئے کوئی قانون سازی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ نیب کی ناجائز حرکتوں کی جس قدر ذمہ داری فوجی آمر پر عائد ہوتی ہے، منتخب حکومتیں بھی اس ناقص کارکردگی کی اتنی ہی ذمہ دار ہیں۔ تاہم جب اس کے شعلے حکمران مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے دامن تک پہنچے ہیں تو شور و واویلا سننے میں آرہا ہے۔ لیکن اب آئندہ پارلیمنٹ ہی اس حوالے سے کوئی اقدام کرنے کے قابل ہو سکے گی۔

ملک سے منی لانڈرنگ ایک بھیانک جرم ہے۔ لیکن اگر یہ رقم 4 اراب 90 کروڑ ڈالر ہو اور اسے غیر قانونی طریقے سے ایک منتخب وزیر اعظم نے دشمن ہمسایہ ملک بھارت منتقل کیا ہو اور ورلڈ بنک اس کی ’تصدیق‘ کرتا ہو تو یہ ایک سنگین معاملہ ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں کسی مین میخ کے بغیر فوری اور سخت کارروائی کرکے ہی قومی مفاد کا تحفظ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر یہ تصویر جھوٹ کی بنیاد پر یا ورلڈ بنک کی جائزہ رپورٹ کو سمجھنے میں غلطی کی بنیاد پر سامنے آئے اور کافی عرصہ گزرنے کے بعد قومی احتساب بیورو تین ماہ پہلے ایک غیر معروف اخبار میں شائع ہونے والے ایک کالم کی بنیاد پر تحقیقات کا آغاز کرتے ہوئے نہ صرف اس کا اعلان کرے بلکہ ایک پریس ریلیز کے ذریعے ملک کے سابق وزیر اعظم کو مشتبہ بھی ظاہر کرے تو اس ادارے کی نیت کے علاوہ اس کی کارکردگی، صلاحیت اور طریقہ کار پر بھی سوال اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس قضیہ کے حوالے سے ان سوالوں کا ذکر کرنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ 2016 میں ورلڈ بنک کی جس رپورٹ کی بنیاد پر یہ تنازعہ کھڑا ہؤا ہے وہ معاشی امیگریشن کے حوالے سے قائم کئے گئے ایک تخمینہ پر مشتمل تھی جس میں یہ اندازہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ ایک ملک سے دوسرے ملک میں ترک وطن کرکے جانے والے اگر ترسیلات زر کرتے ہیں تو اس کا معاشی حجم کیا ہوگا۔ چونکہ یہ تخمینہ یا اندازہ دنیا کے سب ممالک سے ہونے والی امیگریشن کے حوالے سے تھا اس لئے پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی امیگریشن کو بھی اس تخمینہ کی بنیاد بنایا گیا۔ یہ قیاس کیا گیا کہ 1947 میں قیام پاکستان کے بعد ہونے والی نقل مکانی کے نتیجہ میں بھارت سے پاکستان آنے والے لوگ اگر بھارت رقوم روانہ کرتے رہتے تو اس کا حجم کیا ہوتا۔ مقرر کئے گئے پیمانہ کے مطابق اس کا تخمینہ 4.9 ارب ڈالر لگایا گیا۔ 2016 میں یہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد اور اب نیب کی طرف سے ’ اس بدعنوانی‘ کی تحقیقات کا بیڑ ا اٹھانے کے عہد کے بعد بھی ورلڈ بنک اس کی تشریح و توضٰیح کر چکا ہے۔

اس حوالے سے نواز شریف یا کسی بھی شخص پر بدعنوانی یا منی لانڈرنگ کا شبہ کرنے سے پہلے نیب کو اس سوال کا جواب دینا چاہئے کہ اگر یہ معلومات اسی طرح ہیں جس طرح نیب کی پریس ریلیز میں دعویٰ کیا گیا ہے تو اس نے دو سال تک اس معاملہ میں انتظار کرنا کیوں ضروری سمجھا۔ اور کیا ایک غیر معروف اردو روزنامہ میں شائع شدہ کالم کے تراشے پر بھروسہ کرکے ملک کے سابق وزیر اعظم پر اس قدر سنگین الزام کا چرچا کرنا ہی نیب کا طریقہ کار ہے۔ سب سے پہلے تو نیب کو اپنی سست روی اور عالمی بنک کی شائع شدہ رپورٹ کو دو برس تک نظر انداز کرنے کی وضاحت کرنا ہوگی۔ اس کے بعد اس بات کا جواب دینا ہو گا کہ اگر نیب کسی بھی شخصیت کے خلاف کسی بھی الزام میں تحقیقات کا آغاز کرتی ہے تو کیا پریس ریلیز کے ذریعے اس کا ڈھنڈورا پیٹنا ضروری ہوتا ہے۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کہتے ہیں کہ انہیں شہرت یا نکتہ چینی کی پرواہ نہیں ہے ۔ اگر یہ بات درست ہے تو سابق وزیر اعظم کے حوالے سے اس خبر کو اچھالنے کا کیا مقصد تھا۔ جب ابتدائی تحقیقات کے بعد کوئی ثبوت ہاتھ لگ جاتے تب بھی عوام کو اس کی خبر دی جا سکتی تھی۔ اب نیب نواز شریف کے اس الزام کا کس طرح جواب دے گی کہ نیب کا یہ رویہ انتخاب سے پہلے دھاندلی ہے۔ ورلڈ بنک کی رپورٹ میں نواز شریف کا نام بھی موجود نہیں ہے تو نیب نے اپنی پریس ریلیز میں ان کا نام لکھنا کیوں ضروری سمجھا۔ کیا یہ نیب کی بد نیتی کا ثبوت نہیں ہے۔

ملک میں آئندہ انتخابات کے حوالے سے شدید شبہات موجود ہیں۔ ملک میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے غیر معمولی مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں ۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی غیر معمولی عدالتی فعالیت سے سب سے زیادہ نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) متاثر ہورہے ہیں لیکن وہ بھی اپنے اس رویہ کے عدالتی نظام پر منفی اثرات کو تسلیم کرنے کی بجائے، بد عنوانی اور بد انتظامی کے خلاف جہاد میں سرگرم عمل ہیں۔ ان سے بھی یہی پوچھا جاتا ہے کہ انہیں گزشتہ سات آٹھ ماہ کے دوران ہی ملکی نظام کی خرابیاں کیوں دکھائی دینے لگی ہیں۔ اور کیا وہ اپنے عہدے کی باقی ماندہ چند ماہ کی مدت میں واقعی اس ملک کو مسائل سے نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس بارے میں سپریم کورٹ کی صلاحیت پر سوال اٹھانا غیر ضروری ہے کیوں کہ اسٹیل مل اور ریکو ڈک کیس اس کا بھانڈا پھوڑنے کے لئے کافی ہونے چاہئیں۔ اب نیب کے چئیر مین بھی بد عنوانی کے خلاف ادارے کو فعال بنانے کے لئے اسی لیڈر اور پارٹی کو نشانہ بنانے کی مشق کررہے ہیں جو پہلے ہی طاقتور اداروں کے نشانے پر ہے۔ لیکن وہ بدعنوانی کا سراغ لگانے کے لئے اپنی صلاحیت اور پاک دامنی کا ثبوت فراہم کرنے کے نام سے بدکتے ہیں۔ اس طریقہ سے ایک خاص ایجنڈا تو پورا ہو سکتا ہے لیکن ملک کا نظام مزید خراب ہو گا اور اداروں کی شہرت داؤ پر لگی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali