کچھ تو رحم کریں!


اگر ریاست عوام کے تحفظ کی بنیادی ذمہ داری پوری نہیں کر سکتی تو پھر عوام کو باقی بنیادی سہولتوں سے کیا سروکار رہ جائے گا۔ حکمرانوں کے ظالمانہ طرز حکومت کے تسلسل نے عوام کو اس چیز پر مجبور کر دیا ہے کہ عوام کو اپنا کسی بھی قسم کا بنیادی حق دھرنا دیئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا اور اب تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ دھرنا جب تک تشدد کا رخ اختیار نہیں کرے گا، آپ کے مطالبات کو بھی درخورِ اعتنا نہیں سمجھا جائے گا۔

ارباب اختیار نے ستر سالوں کے دوران اپنے طرز عمل سے عوام کو اتنا بے حس کر دیا ہے کہ اب ہمارے مردہ ضمیر کو آئے روز کسی بم دھماکے یا ٹارگٹ کلنگ کے شکار باپ کی لاش کے ساتھ چمٹے ہوئے اُس کے معصوم بچوں کی دلدوز چیخیں بھی نہیں جگا پاتیں یا پھر روزانہ کی بنیاد پر کئی کم سن بچوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی اور پھر سفاک مجرموں کا اپنے جرم کے ثبوت مٹانے کے لیے اُن کو بے دردی کے ساتھ قتل کرنے (زیادتی کے بعد زیادہ تر معصوموں کی گردن کی ہڈی کو بے دردی سے توڑا جاتا ہے یا انہیں زندہ جلا دینے کے اذیت ناک عمل سے بھی گزرنا پڑتا ہے ) جیسے خوفناک واقعات کا تسلسل بھی اب ہمارے ضمیر کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ مزیدیہ کہ ایک دو دن کے بعد ایسی انسانیت سوز خبریں میڈیا سے غائب ہوجانے کے ساتھ ہم بھی انہیں فوراًفراموش کردیتے ہیں۔ اس طرح اگلے روز پھر بالکل ایسا ہی کوئی گھناؤنا واقعہ ہمیں بالکل معمول کا معاملہ لگتا ہے۔ ایسے جرائم پر بجائے غور و فکر کرنے کے زیادہ تر لوگ صرف اللہ سے اپنے کردہ و ناکردہ گناہوں کی معافی کے طلبگار بن جاتے ہیں جیسے یہ متاثرہ لوگ یا معصوم بچے کوئی بہت بڑے گناہ گار تھے جس کی انہیں اتنی خوفناک سزا ملی ہے۔

بچپن میں ہمیں نصابی کتب میں یہ بات بار بار ذہن نشین کرائی جاتی ہے کہ قبل از اسلام دور جاہلیت میں لڑکیوں کی پیدائش پر انہیں زندہ درگور کر دیا جاتا تھا لیکن اب موجودہ جدید تہذیب یافتہ دور میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم اکیسویں صدی میں رہنے کے باوجود اخلاقی و ذہنی اعتبار سے دور جاہلیت سے بھی کسی پرانے زمانے کے باسی ہوں۔ مہذب دُنیا جو کام اپنے عوام کی فلاح و بہبودکے لیے کم از کم سو سال پہلے کرکے آگے بڑھ چکی ہے، وہ ہم ابھی تک حلال و حرام کی چھلنی سے بھی نہیں گزار پائے ہیں۔

اجتماعی طور پر تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کا ان سفاک جرائم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرنا بھی عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ مذہبی جماعتیں ان واقعات کی وجہ دین سے دوری اور اخلاقی بے راہ روی پر ڈال کر اپنا روایتی فرض نبھا دیتی ہیں جبکہ باقی سیاسی جماعتیں بھی ایک رٹا رٹایا روایتی بیان جاری کر کے اپنا دامن بچانے کی ناکام کوشش مسلسل جاری رکھی ہوئی ہیں۔

یہاں ایک اور سوال بار بار ذہن میں ابھرتا ہے کہ ہم انسان تو شاید بہت بعد میں ہوں گے (شاید پتہ نہیں، ہیں بھی کہ نہیں) لیکن سب سے پہلے پکے مسلمان ضرور ہیں تو پھر ایسے ظالمانہ اور مکروہ جرائم کیا اللہ اور اس کے رسول ؐ کے احکامات کی سرعام توہین نہیں ہیں جس کے خلاف بالخصوص کوئی مذہبی جماعت بالکل آواز نہیں اُٹھاتی۔

البتہ کبھی کبھار میڈیا میں کسی ایسے معاملے کے زیادہ اچھلنے پر متاثرہ فریق کے ساتھ تصویر کشی ہر سیاسی و مذہبی لیڈر کی مجبوری بن جاتی ہے۔ اب تو ایسے مواقع پر زیادہ ڈرامہ باز لیڈر گلوگیر آواز کے ساتھ اپنی آنکھوں کو نم کرنے کے فن اداکاری میں بھی بہت طاق ہو چکے ہیں۔ میڈیا کے دباؤ پر بعض اوقات حکومت وقت کو ایسے واقعہ کے متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے بادل نخواستہ لاکھوں روپے کی امداد کا اعلان کرنا پڑ جاتا ہے۔ عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں کے ایسے امدادی چیک اوّل تو صرف خالی اعلان تک ہی محدود رہتے ہیں اور اگر کوئی ثابت قدم مسلسل دھکے کھا کر یہ چیک حاصل کر بھی لے تو پھر یہ اکثر کیش نہیں ہوتے اور اگر بالفرض محال کیش ہو جائیں تو ایک ساتھ اتنی بڑی رقم کا غریب کے پاس آنے سے گھر میں اکثر لڑائی جھگڑا شروع ہو جاتا ہے جو کہ پھر خاندان کی تقسیم پر ہی ختم ہوتا ہے۔

 ارباب اختیار کب تک اپنی نااہلیاں جنرل ضیاء الحق کے سیاہ دور کے کھاتے میں ڈال کر اپنی جان چھڑاتے رہیں گے۔ ٹیکنالوجی کے جدید دور میں اب عوام سے کوئی بات چھپانا ممکن نہیں رہا، چاہے اُس کو آپ جتنا مرضی سنسر کر دیں۔ ہمارے ساتھ یا بعد میں آزادی حاصل کرنے والی ریاستیں ترقی کی اتنی منزلیں طے کر چکی ہیں جن کا ہم صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ ہماری حالت یہ ہے کہ ان ترقی یافتہ ملکوں میں آج بھی ہرگزرتے لمحہ کے ساتھ عوام کی فلاح کے لیے ہر اچھا اقدام ہمیں صرف حیران ہی کرتا ہے، غور و فکر کی دعوت بالکل نہیں دیتا۔

اب تو عام شخص بھی یہ سوال اُٹھاتا ہے کہ جگہ جگہ عوام کے تحفظ کے نام پر قائم نام نہاد ’’ناکوں‘‘ کی بجائے (جن کا مقصد عوام کو مزید اذیت سے دوچار کرکے ان کی عزت نفس کو مجروح کرنا ہی ہوتا ہے) جدید سیکنرز اور اہم جگہوں پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کر کے مشکوک لوگوں اور ممنوعہ مواد کو چیک کرنا کیا کوئی بہت بڑی راکٹ سائنس ہے؟ کیا ہر شخص کا فنگر پرنٹ اور DNAکا ریکارڈ رکھنا ایٹم بم بنانے سے زیادہ مشکل اور مہنگا پراجیکٹ ہے جس کے لیے ہمارے پاس بجٹ نہیں ہے؟

اگر بالفرض حکومت کے پاس اپنے عوام کے تحفظ کے لیے فنڈ نہیں ہے تو جیسا کہ اب تھانے کی حوالات میں ملزم کو رکھنے کے لیے کرایہ وصول کیا جانے لگا ہے، ویسے ہی اہل علاقہ سے چندہ کر کے اسی رقم سے انہیں کے علاقے میں ایسے جدید سیکورٹی آلات نصب کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہوگا۔ ریاست کم از کم سسٹم تو بنا کر دے اگر وہ واقعی مخلص ہے۔ جس طرح پرانی و نئی نسل کے درمیان جنریشن گیپ تیزی سے بڑھ رہا ہے، ایسا ہی معاملہ ہماری ریاست کا باقی دُنیا کے ساتھ بن چکا ہے جس کا سب ے بڑا ثبوت ہمارا سبز پاسپورٹ ہے جو کہ دو سو ممالک کی ورلڈ رینکنگ میں نیچے سے دوسرے یا تیسرے نمبر پر مسلسل ہمارا منہ چڑا رہا ہے۔ اگر مزید کچھ عرصہ یہی صورتحال برقرار رہی تو انشاء اللہ نیچے سے سب سے پہلا نمبر ہماراہی ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).