ابھی بچے نہیں چاہئیں


خاندانی منصوبہ بندی کا ایک شتہار کسے یاد نہ ہو گا جس میں موٹر سائکل پر میاں بیوی اور دو بچے سوار ہیں۔ اور سلوگن لکھا ہے
بس اب اور نہیں۔
کئی دنوں سے ایک اشتہار ہمارے ذہن میں بھی چل رہا ہے۔ جس کا سلوگن ہے۔ بچے، ابھی نہیں۔

مغربی معاشر ے میں بے نکاح جنسی مراسم قائم ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اگر بچہ ہو جائے اور والدین کو بچہ پالنے میں کوئی مسئلہ درپیش ہو تو ریاست کی طرف سے ان کی نگہداشت اور پرورش کا انتظام ہے۔ یوں ایسے بچوں کو ریاست زندہ رہنے اور، معاشرے میں اپنا مقام بنا نے کے مواقع پیدا کرنے میں مدد دیتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں عجیب و غریب صورتِ حال ہے۔ ہم نے موت اور زندگی کو ہی نہیں موت کے طریقہ ء کار کو بھی اپنے اختیار میں لے رکھا ہے۔ لذتِ گناہ کے پھل کی نمو ہونے کے بعد ساری تکالیف ماں کے مقدر میں آتی ہیں۔ اور اگر بچہ دنیا میں سانس لینے کی ضد کرے تو تکلیف دہ انجام سے دو چار کر کے اس سے زندگی کی رمق چھین کر، کہیں بھی پھینک دیا جاتا ہے۔ یوں بس خدائی کا دعویٰ نہیں، اسے آپ انکساری پر محمول نہ کریں تو یہ آپ کا ظرف ہے۔

ایک مولانا کا بیان سامنے آیاکہ بے حیائی کو روکنے کے لیے ایک مرد چار چار شادیاں کرے۔ تو جناب چار شادیوں سے بے حیائی رکے گی نہیں اور پھیلے گی۔ ایک بیوی کو خوش رکھنا ہی مشکل ہو جاتا ہے نہ کہ چار بیویوں کو۔ شادی شدہ عورت جو اپنے شوہر سے غیر مطمئن ہو اس کے بے حیا ہو نے کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں۔ اور اس کی بے حیائی کا پھل بھی عام طور پر اس کے خاوند کے کھاتے میں چلا جا تا ہے۔ عورت کی بے حیائی سے مت ڈرو مردوں کو حیا اور عورت کی عزت کی تعلیم دو بے حیائی خود بخود ختم ہو جا ئے گی۔ لیکن اگر چار شادیوں کی رٹ لگائے رکھی تو اپنی بیٹی کے لیے اس کا نمبر سوچ کر رکھیں۔ وہ آپ کے داماد کی بیویوں میں کس نمبر پر ہوگی۔

ہم اسلامی معاشرے میں رہتے ہیں یہاں پر مرد و عورت کے جسمانی ملاپ کے لیے شادی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ اور شادی کے بعد اس بندھن کو مضبوط کرنے کے لیے اولاد کا ہو نا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اور اولاد کے پیدا ہو تے ہی ایک دوسرے سے بے زار میاں بیوی بھی اولاد کو اس رشتے کی مضبوط ڈوری سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ خوش رہنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے زندگی گزار دیتے ہیں۔

چلو یہاں تک بھی ٹھیک ہے۔ بچوں کی خاطر ساتھ رہے بچوں کی خاطر بچے پیدا کیے۔ بچوں کی خاطر ایک دوسرے کو برداشت کیا۔ اور بچوں کی خاطر دادی دادا بن گئے۔ بچوں کی خاطر ان کے بچوں کے رکھوالے بن گئے۔ بچوں کی خاطر اپنی کوئی تکلیف، کوئی کمزوری اور کوئی دل کی بات نہ کی اور بچوں کی خاطر موت کو چپ چاپ گلے لگا لیا۔

زندگی کی اس لائیو سیریز میں صرف آپ کا نقصان ہوا۔ ہمارے معاشرے میں یوں بے رنگ زندگی گزارنے پر نیک کردار کا سرٹیفکٹ دیا جا تا ہے اور آخرت میں جنت کی نوید بھی سنا دی جاتی ہے۔ اور دل کے خوش رکھنے کو خیال ایسا برا بھی نہیں ہے۔ بات تب بگڑتی ہے جب میاں کسی طور مصلحت پر آمادہ نہ ہو اور بیوی کو طلاق دے کر چلتا کرنے پر بضد ہو، یا بیوی کے لیے شوہر کے ساتھ رہنا عذاب بن جا ئے، تب وہ خلع لے لیتی ہے۔ ایسے میں نقصان ان بچوں کا ہوتا ہے، جنہیں اس دنیا میں خوشی خوشی لایا گیا۔ لیکن والدین کے اس فیصلے نے اچانک ان کی خوشیوں اور مستقبل پر کاری ضرب لگا دی۔ ان کے احساسات سے بے پروا ماں باپاپنی راہیں جدا کر لیتے ہیں۔ اور بعد میں اپنا گھر بھی بسا لیتے ہیں۔ لیکن ان بچوں کی نفسیاتی کیفیت، جذبات اور صلا حیت میں جو بحران پیدا ہو تا ہے۔ اس سے معاشرےٍ کا متاثر ہو نا یقینی ہے۔

یہ کیسا بندھن ہے۔ جس کی مضبوطی کو بچوں کی پیدائش سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ ہم اسے یوں بھی دیکھ سکتے ہیں کہ بچوں کی پیدائش کے بعد میاں بیوی ایک دوسرے کی توجہ کے اتنے طالب نہیں رہتے اور وہ اپنی توجہ کا مرکز کیوں کہ اپنی اولاد کو بنا لیتے ہیں اس لیے ایک دوسرے کمزوریوں کی طرف سے دھیان ہٹ جا تا ہے۔ ذمہ داری کے احساس سے پھر خاص طور پر مرد کے لیے خیال کیا جا تا ہے کہ اب وہ ایک کھونٹے سے بندھ کر رہے گا۔ کسی کو باندھے رکھنا کا خیال اتنا برا نہیں لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ بچے ہتھکڑی ثابت ہوں گے تو یہ سراسر ان کے وجود کا ناجائز استعمال ہے۔

اب یہ بحث کہ لڑکیوں میں برداشت نہیں ہے وہ اپنا گھر بسانے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ وقت بدل چکا ہے۔ پہلے عورت کو خود آگہی تھی نہ خود کے پیروں پر کھڑے ہو نے کے مواقع تھے۔ آج کا مرد اپنی بیوی سے وہی سلوک کرتا ہے جو اس نے اپنے باپ کو اس کی ماں کے ساتھ کرتے دیکھا۔ اور ماں نے نہ تو کبھی شکائت کی نہ گھر چھوڑا، نہ ان کے باپ کو چھوڑا۔ اب اگر بیٹا اپنی بیوی کی تذلیل کرے تو موجودہ دور کی لڑکی احتجاج کرتی ہے لیکن تین بار سے زیادہ موقع نہیں دیتی۔ موجودہ دور کی لڑکی نہ تو اپنے میاں کو اپنی پسند پر چلاتی ہے نہ اس کی پسند کے مطابق زندگی گزارنا پسند کرتی ہے۔ موجودہ دور کے لڑکوں نے بھلا کب اپنی ماں کو ہٹ دھر می کرتے دیکھا۔ وہ ایسی بد تمیز ہٹ دھرم بیوی کو چلتا کرتے ہیں۔

لیکن اب جب دوسری شادی کی باری آئی تب ایسی ایسی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا کہ الحفیظ الامان۔ ہر رشتے پر انکار سن کر لڑکے کی ماں کے لبوں پر یہ ہی فقرہ تھا۔ کتنے نخرے ہو گئے ہیں لڑکیوں کے۔ یہ تو کچھ بھی نہیں ابھی دیکھتے جائیں۔ پرانے زمانے میں جس طرح لینڈ لائن کے لیے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے لیکن ڈاکٹر، وکیل کو تر جیحی بنیا دوں پر ہی کنکشن ملتا تھا۔ پھر کسی نے بد دعا دی ہوگی کہ ایک وقت ایسا آئے کہ تم گھر گھر جا کر اپنا کنکشن دو گے، مگر کوئی نہ لے گا۔ بالکل ویسے ہی وہ وقت دور نہیں جب مردوں کو پہلی شادی میں ہی ڈھنگ کی لڑکی کا حصول مشکل ہو جائے گا۔ اور دوسری تو نا ممکنات میں سے ہو گی۔

ہر دور میں زندگی گزارنے کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ موجودہ دور میں لڑکیاں پڑھ لکھ رہی ہیں۔ وہ زندگی میں کچھ کرنا چا ہتی ہیں۔ اپنا آپ منوانا چاہتی ہیں۔ اپنے صلا حیتوں کو پرکھنا چا ہتی ہیں۔ لیکن معاشرتی دباؤ اور اپنی بنیادی ضرورت کے تحت کوئی مرد ان کی زندگی میں شوہر کی حیثیت سے داخل ہو بھی جا ئے تو اسے آقا کی حیثیت نہیں دیتیں۔ اور کبھی کبھی بیوی کے حاکمانہ انداز پر مرد کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو جا تا ہے۔ ایک حد تک برداشت کرنے کے بعد میاں بیوی میں سے کوئی ایک اس تعلق کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ اس فیصلے کا فریقین کو مکمل اختیار ہے۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ شادی کے بعد ایک دوسرے کو سمجھنے کے بعد اپنا خاندان بنا نے کے بارے میں سوچا جا تا۔ ایسی صورت میں بچوں کی خاطر نہ تو اس بندھن کو زبردستی نبھا نے کی نوبت آتی۔ نہ علیحدگی کی صورت میں بچوں کو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا۔ موجودہ دور کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میاں بیوی کو شادی کے کم از کم پانچ سال کے بعد اپنے خاندان بنانے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ میاں بیوی کے مستحکم تعلقات میں ہی گھر کا ماحول خوش گوار رہتا ہے۔ میاں بیوی خوشگوار تعلقات ہوں تو صلاحیتوں پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ معاشی صورتِ حال بھی بہتر ہوتی ہے اور اس آئیڈیل صورتِ حال ہی میں بچوں کو اپنے گھر کے آنگن میں خوش آمدید کہنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).