نواز شریف کے بیانات اور پاکستانی میڈیا


پاکستان کے سابق وزیراعظم نوازشریف کی مشکلات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہیں۔ وہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سے سیاست کے لیے تاحیات نا اہل ہونے کے بعد آج کل احتساب عدالت میں باقاعدگی سے پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ اب تک وہ 65 سے زائد بار عدالت کے سامنے پیش ہو چکے ہیں۔ میرے خیال میں اپنی حکومت کے دوران وہ اسمبلی میں اس کے نصف کے برابربھی حاضریاں نہیں دے سکے۔ نواز شریف ہر سماعت کے بعد احتساب عدالت کے باہر میڈیا کے لوگوں سے کافی کُھلی ڈلی بات چیت کرتے ہیں۔ نواز شریف کے رویے میں یہ نمایاں تبدیلی وہاں ڈیوٹی پر موجود رپورٹرز محسوس کر رہے ہیں‌۔ عدلیہ کی جانب سے واضح احکامات کے بعد میڈیا اُن کی تقاریر اور گفتگو نشر کرنے کے معاملے میں بہت محتاط ہو گیا ہے۔

گزشتہ رات (11 اپریل 2108 ) نواز شریف نے ملتان میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا۔ خطاب کے دوران انہوں نے ڈی جے سے وہ گانا چلانے کا مطالبہ کیا جس میں ’ووٹ کو عزت دو‘ کا جملہ بار بار آتا ہے۔ یہ گانا بجنا شروع ہوا تو جلسے کے شرکاء جھومنے لگے۔ جب گانے کا یہ بول چلا کہ ”قاضی کو سنانا چاہتا ہوں“ تو چینلز نے فورآ لائیو نشریات روک دیں اور اینکرصورت حال کو ”کور“ کرنے لگے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے میڈیا ہاوسز کو اس وقت کس قدر مشکل کا سامنا ہے۔ انہیں ایک طرف تو سیاست دانوں کی تقریریں نشر کرنی ہیں تو دوسری طرف یہ بھی دھیان رکھنا ہے کہ عدلیہ یا ملک کی فوج کے خلاف کوئی جملہ نشر نہ ہو جائے۔ میڈیا ہاوسز میں براہ راست نشریات کی نگرانی کرنے والے ابھی تک وہ طریقہ نہیں ڈھونڈ پائے جس کی بنیاد پر وہ پہلے ہی جان سکیں کی خطاب کرنے والا آگے کیا کہنے جا رہا ہے۔

نواز شریف کی دو دن قبل کی پریس کانفرنس کے بعد سیاسی منظرنامہ مزید واضح ہو گیا ہے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ اگر آپ کو جیل بھیج دیا جاتا ہے تو کیا آپ رحم کی اپیل یا کوئی ڈیل کر لیں گے تو انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ نہ وہ رحم کی اپیل کریں گے اور نہ ہی کوئی ڈیل۔ اس کے اگلے دن یعنی 10 اپریل کو احتساب عدالت کے باہر نواز شریف نے صحافیوں کو ایک لطیفہ نما واقعہ سنایا جس سے تاثرملتا ہے کہ نواز شریف اب مزاحمت کی راہ چُن چکے ہیں۔ انہوں نے جو حکایت سنائی وہ وہاں پر موجود ایک صحافی کے مطابق یوں تھی : نواز شریف نے سنایا کہ :‘راجن پور سے آگے بلوچستان شروع ہو جاتا ہے۔ وہ پنجاب کا آخری علاقہ ہے۔ یہ بہت پہلے کا واقعہ ہے کہ وہاں دورے پر گئے ہوئے ایس پی نے تھانے کے ایک سپاہی کو ڈانٹ دیا کہ تھانے میں صفائی کیوں نہیں ہے، ایس پی نے کہا میں تمہیں ٹرانسفر کر دوں گا اور سزا دوں گا۔ سپاہی نے کہا جناب جو مرضی کرلیں، راجن پور سے آگے کوئی تھانہ نہیں، اور سپاہی سے نیچے کوئی رینک نہیں‘

ہم نے یہ کہاوت پنجابی زبان میں کچھ اس طرح سُن رکھی ہے کہ :‘شاہ والی توں اگے تھانہ کوئی نئیں تے کانسٹیبلی توں تھلے رینک کوئی نئیں‘

اس کہاوت کے ذریعے نواز شریف نے بہت خوبی سے اپنا مدعا بیان کر دیا ہے کہ مجھے وزارت عظمٰی سے ہٹا دیا گیا، پھر سیاست کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا، نظرثانی کی اپیل کی تو تاحیات نا اہلی کا پروانہ تھما دیا گیا۔ مزید یہ کہ اپنی پارٹی کی صدارت سے بھی ہٹا دیا گیا۔ اب اس سے نیچے بچ ہی کیا گیا ہے، سو لگتا یوں ہے کہ نواز شریف اب مزاحمت ہی میں اپنی سیاسی بقا کی موہوم سے امید دیکھتے ہیں۔

نواز شریف کی نا اہلی کے فیصلے کے بعد سے پاکستان کے میڈیا ہاوسز میں واضح تقسیم دیکھنے میں آ رہی ہے۔ کچھ ٹی وی چینلز اپنی نشریات سے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ ملک میں سول بالادستی کے حق میں ہیں اور وہ نواز شریف کو ایک مظلوم کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ دوسری جانب اکثر چینلز ایسے ہیں جو نواز شریف کو اس ملک کا ’کرپٹ ترین سیاست دان‘ ثابت کررہے ہیں۔ ان چینلز کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی ’نو مور نواز شریف پالیسی‘ کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس تاثر کو تقویت ان چینلز کی انتہائی جارحانہ نشریات اور ان کے پروگراموں میں بلائے گئے مخصوص مہمانوں کو دیکھ کر ملتی ہے۔

آج 12 اپریل 2018 کو معروف پاکستانی انگریزی اخبار ڈان میں نواز شریف کا انٹرویو شائع ہوا ہے۔ نواز شریف نے انٹرویو میں اکثر وہی باتیں کی ہیں جو وہ آج کل اپنی تقاریر میں کہتے رہتے ہیں۔ چندایک باتیں ایسی بھی ہیں جن کی بنیاد پر آئندہ دنوں میں میڈیا میں خوب دھول اڑائی جا سکتی ہے۔ نواز شریف نے اس انٹرویو میں کہا : ’مسلح تنظیمیں ابھی تک سرگرم ہیں۔ آپ انہیں نان اسٹیٹ ایکٹرز کہہ لیجیے، کیا ہمیں ان کو یہ اجازت دینی چاہیے کہ وہ سرحد پار کر کے ممبئی میں ڈیڑھ سو افراد کی جان لے لیں؟ مجھے سمجھائیے، کیوں ہم ان کا مکمل ٹرائل نہیں کر سکتے؟ ‘ انٹرویو نگار اور ڈان کے صحافی سرل المیڈا کے بقول وہ ممبئی دھماکوں سے متعلق ٹرائل کی حوالے سے بات کر رہے تھے جو اس راولپنڈی انسداد دہشت گردی عدالت میں چل رہا ہے۔

انہوں نے اس انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ : ’جب ملک میں دو یا تین متوازی حکومتیں چل رہی ہوں تو ملک کا نظام نہیں چل سکتا۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ ملک میں صرف ایک ہی حکومت ہونی چاہیے یعنی آئینی حکومت‘

خیال رہے کہ سرل المیڈا وہی صحافی ہیں، جن کی 6 اکتوبر 2016 کو شائع ہونےوالی ایکسکلیوسو نیوز اسٹوری ’ڈان لیکس‘ کے نام سے مشہور ہوئی اور پھر (مبینہ طور پر) معلومات لیک کرنے کی پاداش میں نواز شریف کو اپنے انتہائی معتمد ساتھی اور وفاقی وزیر پرویز رشید اور اپنے مشیر طارق فاطمی کوان کے عہدوں سے ہٹانا پڑا۔ اسی دباؤ میں انفارمیشن افسر راؤ تحسین کی قربانی بھی دینی پڑی تھی۔

یہ سطور لکھتے میری نگاہ ٹوئیٹر پر موجود بھارتی خبری حلقوں کی گفتگو پر پڑی۔ بھارت میں کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ’ جب پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف تسلیم کر رہے ہیں کہ 26 گیارہ کے حملوں میں پاکستان ملوث تھا تو کیوں نریندر مودی حکومت پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار دکھے ہوئے ہے‘

نواز شریف کو ان کے اکثر مخالفین ’مودی کا یار‘ قرار دیتے رہتے ہیں، اس ضمن میں کبھی بھارتی کاروباری شخصیت سجن جندال کی ان سے ملاقات اور کبھی بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی ان کے گھر آمد کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ چند دن قبل ان کے خلاف نیب کی جانب سے ایک نسبتآ کم معروف اردو اخبار ’روزنامہ اوصاف‘ کے میں تین ماہ قبل شائع ہونے والے کالم کی بنیاد پر بھارت میں منی لانڈرنگ کے الزام کی تحقیقات کا اشارہ بھی دیا گیا تھا، جس کے بعد قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کو وضاحتی پریس ریلیز جاری کرنی پڑی۔ اس پہلی اور دوسری پریس ریلیز کے بعد سوشل میڈیا پر قومی احتساب بیورو کو کافی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد نواز شریف نے ایک بھرپور پریس کانفرنس کی اور چیئرمین نیب سے معافی مانگنے اور استعفا دینے کا مطالبہ کر دیا۔ نواز شریف کو کافی عرصے بعد کھل کر بولنے کا موقع ہاتھ آیا تھا۔

صحافی سرل المیڈا کے ساتھ نواز شریف کی اس تازہ اور مختصر گفتگو میں وہ مواد آ چکا ہے جس کی بنیاد پر ان کے خلاف بھرپور مہم چلائی جاسکتی ہے۔ یہ فیصلہ کہ ممبئی دھماکوں‌ میں پاکستان کی جانب سے کوئی مسلح گروہ ملوث تھا یا نہیں، راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت کبھی نہ کبھی کر ہی دے گی لیکن نواز شریف کا اس انٹرویو میں موجود استفہامی جملہ محض ایک ’تاحیات نا اہل‘ اور سیاسی عہدوں سے برطرف شخص کا جملہ ہی نہیں بلکہ ایک ایسے شخص کا جملہ ہے جو تین بار اس ملک کا وزیراعظم رہ چکا ہے اور اسے بخوبی اندازہ ہے کہ کس وقت کون سی بات کرنا موزوں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).