غدار بنانے کا آزمودہ طریقہ


میرے ایک دوست جوزف سکووریکی نے اپنی ایک کتاب میں ذیل کی سچی کہانی بیان کی ہے:

پراگ کے ایک انجینئر کو لندن میں ایک پیشہ وارانہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔ وہ وہاں جاتا ہے، کارروائی میں شریک ہوتا ہے اور پراگ لوٹ آتا ہے۔ اپنی واپسی کے چند گھنٹے بعد وہ اپنے دفتر میں سرکاری روزنامہ رودی پراوو اٹھاتا ہے اور ان سطروں پران کی نگاہیں جم جاتی ہیں: ’’لندن میں ایک کانفرنس میں شرکت کے دوران ایک چیک انجینئر نے اپنی اشتراکی مادر وطن کے بارے میں مغربی اخبار نویسوں کو ایک رسوا کن بیان دیا ہے اور (ساتھ ہی)مغرب میں رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔‘‘

غیرقانونی ترک وطن اور اس پر مستزاد اس قسم کا بیان! یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ اس کی سزا بیس سال قید ہے۔ انجینئر کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا لیکن اس امر میں کوئی شک نہیں کہ مضمون میں اسی کو حوالہ بنایا گیا ہے۔ اس کی سیکرٹری اسے دفتر میں پاکر صدمے سے دوچار ہے ۔ وہ کہتی ہے:

’’آپ لوٹ آئے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ کیا آپ نے وہ سب کچھ پڑھ لیا جو آپ کے بارے میں لکھا گیا ہے؟‘‘

انجینئر اپنی سیکرٹری کی آنکھوں میں تیرتا ہوا خوف محسوس کرتا ہے۔ اسے کیا کرنا چاہیے۔ وہ فوراً رودی پراوو کے دفتر جاتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس ساری کہانی کا ذمہ دار اخبار کا ایڈیٹر ہے۔ ایڈیٹر معذرت خواہ ہے۔ ہاں صاحب! یہ تو واقعی پریشان کن صورت حال ہے لیکن ایڈیٹر غریب کے پاس اس کا کیا علاج؟ اسے تو مضمون کا متن براہ راست وزارت داخلہ سے ملا تھا!

ناچار انجینئر وزارت داخلہ کے دفتر جاتا ہے۔ وہاں کے لوگ کہتے ہیں یہ تو واقعی بہت غلط ہوا لیکن وزارت داخلہ اس باب میں بے قصور ہے۔ اسے تو انجینئر کے بارے میں یہ رپورٹ لندن کے سفارتخانے کے خفیہ والوں نے بھجوائی تھی۔ اس پر انجینئر وزارت سے بیان واپس لینے کا مطالبہ کرتا ہے۔ ’’نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔ ہم بیان دے کر واپس نہیں لیا کرتے لیکن مطمئن رہو، تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔ تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔‘‘

لیکن انجینئر واقعتاً پریشان ہے۔ اسے جلد احساس ہو جاتا ہے کہ اچانک اس کی بہت قریب سے نگرانی ہونے لگی ہے۔ اس کا ٹیلیفون ٹیپ کیا جانے لگا ہے اور گلی میں اس کا پیچھا کیا جاتا ہے۔ اس کی نیند اڑ جاتی ہے اور اسے خوفناک خواب آنے لگتے ہیں۔ بالآخر اس کرب سے عاجز آ کر وہ غیرقانونی طور پر بہت سے خطرات مول لے کر ملک چھوڑنے کا ارادہ کرلیتا ہے اور یوں وہ واقعی مجبور ہو کر ترک وطن کرکے مہاجر بن جاتا ہے۔

میلان کنڈیرا کے مضمون Somewhere Behind سے اقتباس

ترجمہ: ڈاکٹر تحسین فراقی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).