میاں صاحب نے کیا غلط کہا جناب؟


پچھلے دنوں ڈاکٹر فرحان عبادت یار سے فیس بک پر ایک بحث ہو گئی جب انہوں نے فرمایا کہ اجمل قصاب کے بارے میں بتانے کی وجہ سے انہوں نے جیو نیوز دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ آج تک معاف نہیں کیا۔ بہت حیرت ہوئی کہ اتنا پڑھا لکھا آدمی ایک نان سٹیٹ ایکٹر کا ایسا دیوانہ کیوں !

نان سٹیٹ ایکٹرز نے نان سٹاپ ستر ہزار بندے مار دیے لیکن ڈاکٹر صاحب کی محبت کمال ہے۔ زمین کی محبت چیز ہی ایسی ہے، نان سٹیٹ ایکٹرز سے بھی محبت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ سوات میں بہت برداشت کیا جی نان سٹیٹ ایکٹرز کو، کبھی ایف ایم ریڈیو پر لمبے لمبے دھمکی آمیز خطبے سننا پڑے، کبھی ایک چوٹی سے دوسری چوٹی پر بھاگنا پڑا حالانکہ اس ساری ڈرل میں نان سٹیٹ ایکٹرز نے بہت سا اسلحہ بھی قابو کر لیا، طالبان کورٹس کو برداشت کرنا پڑا حالانکہ پنجاب کا ایک ایس ایچ او ساری ہوا نکال سکتا تھا ریاست کے اندر ریاست کی لیکن اپنے لوگوں کی محبت تھی کہ خونی چوک پر روز لاشوں کےتماشے لگے۔ ان دنوں میں ایک ڈاکیومنٹری بنانے سوات گیا ہوا تھا لیکن مجھے تو کوئی نان سٹیٹ ایکٹر بازاروں میں پھرتا نظر نہیں آ یا۔ کسی مہمان خانہ میں ہوں تو کچھ کہ نہیں سکتا البتہ جب آپریشن ہوا تو سارا شہر ہی خالی تھا اور اگر کسی کم عقل نے اپنا گھر نہیں چھوڑا اور طالبانائزیشن کو شعبدہ بازی کہتا رہا، اسے دنیا چھوڑنا پڑی۔

ملا فضل اللہ آپریشن کے دوران ایف ایم ریڈیو خود ہی چھوڑ کر لنگڑاتا لنگڑاتا بھاگ گیا۔ میں آپریشن کے بعد سوات گیا تو ایک فیکٹری والا حیران تھا کہ جنگ میں اے ٹی ایم کارڈز اور لیپ ٹاپ پر بھی ہلہ بولا جاتا ہے۔ بہت باریک بینی سے یہ آپریشن کیا گیا تھا۔

نان سٹیٹ ایکٹرز اور انکے قلع قمع کی ایسی کہانیاں بہت ہیں۔ آ پ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ جائے گی۔ نان سٹیٹ ایکٹرز کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔ معصوم لوگوں کے خون کا حساب لیا جائے کا۔ ہم نے دہشت گردی ختم کرنے کا عہد کر رکھا ہے۔ آ خری دہشت گرد کے خاتمے تک سکون سے نہیں بیٹھوں گا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب تمام دوسری بازیوں کی طرح بیان بازی ہے۔ تمام دوسری لذتوں کی طرح لذت بیانی ہے۔ نان سٹیٹ ایکٹرز کے ہاتھوں اپنے بچے مروانے، پورے معاشرے کو دولے شاہ کا چوہا بنانے، زمانے سے قربانیاں قبول کرنے کی استدعا کرنے، اپنا بیانیہ لے لے کر در در پھرنے، شہیدوں کے لہو کا خراج مانگنے کے باوجود کوئی آپ پر یقین نہیں کرتا۔ جنہوں نے آ پ کو اس کام پر لگایا تھا وہ تو راتوں رات لبرل ہو گئے اور دلداری واعظ کو ھم تو باقی رہے لیکن واعظ خود “کافر ہو گیا”۔

ھارا جذبہ دیکھیں ھم نے کپڑے کی صنعت بند کروا لی لیکن جہاد انڈسٹری پر سمجھوتا نہیں کیا۔ سٹیل ملز ملازمین کو بھوکا مار دیا لیکن پانچ جہاز جو قندوز سے بھر کر لائے تھے، اپنے سینے سے لگا کر رکھے۔ اقلیتوں کو اجڑنے دیا، بلکنے دیا، لیکن کالعدم تنظیموں کو (جن پر 2002 میں پابندی لگائی تھی) چوری چھپے کام کرنے دیا۔ ظاہر ہے انہوں نے کونسا مابعد جدیدیت کے مقابلے میں کوئی ادبی کارنامہ انجام دینا تھا۔ انہیں ” کافروں” کو مارنا آ تا تھے، بے دریغ مارتے رہے۔

فیض ہوتے تو پوچھتے کہ تجھ کو کتنوں کا لہو چاھیے اے ارض وطن!

جہاں زاد ! نیچے گلی میں تیرے در کے آ گے میاں نواز شریف کی افق تاب نگاھیں پھر کچھ ایسا کہہ گئیں ہیں کہ ابر و مہتاب کا ہلنا دشوار ہو گیا ہے۔ خاک بر سر برہنہ سر چاک، ژولیدہ مو کسی غمزدہ دیوتا کی طرح ایک بہت ہی جائز سوال کھڑا ھے کہ ھم دہشت گردوں سے چشم پوشی کرتے ہیں اور وہ بھارت جا کر ایک سو چھیاسٹھ بندے مار دیتے ہیں۔ اقامے کا فیصلہ اتواریں لگا کر بھی آ جاتا ہے لیکن راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کچھ نہیں بتاتی کہ آ یا بمبئی حملوں میں ہمارا کوئی قصور تھا؟ عین اس وقت جب ھمارے انٹیلیجنس چیف کو امریکی عدالت میں جانا تھا کمبخت ریمنڈ ڈیوس کہاں سے کود پڑا اور کیسے اس چیف نے ریمنڈ کے ہاتھوں دو مقتول کے لواحقین کو دیت لینے پر راضی کیا۔ لطیف محسود کون تھا۔ اس نے امریکی عدالت میں کیا بیان دیا اور ابو جندل کون تھا، اس نے پاکستانی پاسپورٹ کیسے حاصل کیا اور وہ بمبئی حملوں کے وقت کراچی میں کس اونچی جگہ پر کس کا مہمان بن کر بیٹھا تھا۔ بعد میں وہ سعودی عرب کیسے فرار ہوا اور کیسے دوبارہ بھارت میں گرفتار ہوا۔ امریکہ نے ہمیں بمبئی حملوں کے الزام پر “کلین چٹ” کیوں دی؟ پاکستان نے اجمل قصاب کو وکیل کیوں نہیں دیا؟ سرکاری وکیل جو اجمل قصاب کو دیے گیے ان کو بے یار و مدد گار کیوں چھوڑا گیا۔

نواز شریف تو شاید کہیں پیغام پہنچا رہے ہیں کہ اس سے ڈرو جو یہ کہتا ہے کہ اب اسے کسی کا ڈر نہیں لیکن سوال بہت اہمیت کا حامل ہے کہ صرف ایک ٹیلیفون پر اگر کمانڈو مشرف نے لبیک کہا اور پوری قوم کو جنگ میں جھونک دیا بغیر کسی بھاؤ تاؤ کے اور پھر بھی یہ شکوہ ہے کہ تو بھی تو دلدار نہیں، نام نہاد بیانیے کی بھد اڑاتا ہے۔

میاں نواز شریف ابھی اور بھی بہت سے سوال اٹھائیں گے اور وہ سب سیکیورٹی، خارجہ پالیسی، داخلہ پالیسی اور اقلیتوں سے متعلق ہی ہوں گے اور ظاہر ہے میاں صاحب سیاست کر رہے ہوں گے، انہوں نے عندیہ دیا ہے کہ کوئی ڈیل یا سمجھوتہ بھی نہیں کریں گے۔ اس وقت میاں صاحب کی سیاسی حکمت عملی کو سمجھنا ہے تو اصولوں کی سیاست کی شعبدہ بازی کو سمجھ لیں یعنی جیسے ایک کارٹون میں انکل سام کو شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے دکھایا گیا اور وہ ایک غریب ملک سے کہہ رہا تھا،” مجھے اندر آنے دو ورنہ جمہوریت کی خاطر میں خود آ جاؤں گا”۔ بعض اوقات اصولوں کی سیاست بھی کرنی پڑتی ہے۔ سیاست میں ہر وہ اصول اور سمجھوتہ چلتا ہے جس کی کوئی کیش ویلیو ہو۔ اس وقت غداری کا غلغلہ مچ بھی گیا تو میاں صاحب کے پاس کھونے کو صرف لندن کا ٹکٹ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).