نواز شریف اپنی بات نبھائیں یا سیاست چھوڑ دیں


ممبئی حملوں کے بارے میں نواز شریف کے بیان کے بعد فوج کے مطالبے پر سوموار کو نیشنل سیکورٹی کونسل کا اجلاس منعقد کیا جائے گا۔ فوج کے ترجمان میجر جنر آصف غفور کے اس اعلان سے پہلے پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی طرف سے نواز شریف کے بیان پر سخت رد عمل متوقع تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی نواز شریف کا نام لئے بغیر اس بات کو لے کر خوب گرج برس چکے ہیں کہ پاکستان کی عدالتوں میں ممبئی کیس کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہ ہونے کی وجہ بھارت کا عدم تعاون اور گھمنڈ ہے۔ لیکن یہ بات حیران کن ہے کہ فوج اس حساس معاملہ پر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو مزید ہراساں کرنے کا اعلان کررہی ہے۔ یہ سمجھنا کم فہمی ہونا چاہئے کہ ڈان کے سیرل المیڈا کو انٹرویو دیتے ہوئے نواز شریف نے خارجہ پالیسی اور پاکستان کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے نان اسٹیٹ ایکٹرز اور ممبئی حملوں کا ذکر کیا تو وہ اس بیان کی سنگینی اور حساسیت سے آگاہ نہیں تھے۔ اس لئے مسلم لیگ (ن) کے ایک ترجمان کی وضاحت اور اس قضیہ کی ذمہ داری بھارتی میڈیا کی ’اشتعال انگیز اور گمراہ کن ‘ رپورٹنگ پر ڈال کر اصل موضوع کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ نواز شریف نے ملک کی سیاسی بحث میں جو چنگاری پھینکی ہے اس سے بھڑکنے والی آگ انہیں غدار بھی قرار دے سکتی ہے اور اگر حوصلہ مندی اور ملک میں منتخب پارلیمنٹ کے وقار کو بحال کرنے کی جنگ میں کامیابی حاصل کرنا ہے تو نواز شریف کو بلا شبہ ایک نادر موقع میسر آیا ہے جو شاید انہوں نے سیاسی ہنر مندی سے حاصل کیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ وہ گھبرا کر مسلم لیگ (ن) کے وضاحتی بیان کو ڈھال بناتے ہوئے بھارتی میڈیا کی رپورٹنگ اور اپنی باتوں کی غلط تفہیم کا بہانہ بنا کر جان چھڑانا چاہتے ہیں یا اس موقع کو ماضی میں اپنے سیاسی گناہوں کے کفارہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ایک بہادر اور دیانت دار لیڈر کے طور پر سامنے آتے ہیں۔

فوج نے قومی سلامتی کونسل کا جو اجلاس طلب کیا ہے، وہ مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں منعقد ہو گا۔ لیکن اس اجلاس کے دوران پاک فوج کے سربراہ وزیر اعظم کی سرزنش کرتے ہوئے انہیں متنبہ کریں گے کہ سابق وزیر اعظم کی طرف سے ایسے ’غیر ذمہ دارانہ‘ بیانات سے قومی مفادات کو زک پہنچی ہے اور اس قسم کا رویہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ وزیر اعظم کے پاس اس ’وارننگ نما مشورہ‘ کے سامنے سر ہلانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا اور اجلاس کے اختتام پر ممبئی حملوں میں پاکستان کی بریت کا اعلان کرتے ہوئے ممکنہ طور پر واضح کیا جائے گا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ کر رہا ہے اور اس نے اس جنگ کی بھاری قیمت بھی ادا کی ہے ۔اس لئے یہ گمان کرنا کہ پاکستان دوسرے ملکوں میں دہشت گردی میں ملوث ہے، گمراہ کن اور پاکستان کی قربانیوں کو نظر انداز کرنے کی مذموم اور بھونڈی کوشش ہے۔ تاہم یہ قضیہ اس اجلاس کے ساتھ ختم ہونے کا امکان نہیں ہے۔ بھارت کے ساتھ دشمنی کا جو رشتہ گزشتہ ستر برس میں استوار ہؤا ہے یا کیا گیا ہے اور موجودہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جس طرح پاکستان کو تنہا کرنے اور اس کے ساتھ ہر قسم کے مذاکرات اور تعاون کا راستہ روکنے کی جو کوششیں کی ہیں ۔۔۔ ان کی روشنی میں نواز شریف کا بیان اب ان کی مبینہ بدعنوانی کے بعد پاکستان دشمنی اور بھارت نواز پالیسی کے طور پر پیش کیا جائے گا اور سیاسی مخالفین اس سے پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ اس صورت حال میں نواز شریف نے اگر دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کی کوشش کی اور اپنے اصل بیان سے پیچھے ہٹے تو ان کے اعتبار کو شدید دھچکہ لگے گا۔ اس لئے انہیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہ جو قدم اٹھا چکے ہیں اب اس سے پیچھے ہٹنے کا وقت گزر چکا ہے۔ اب انہیں  واضح اور دو ٹوک لفظوں میں بیان کردینا چاہئے کہ پاکستان کی خارجہ اور سیکورٹی پالیسی پر فوج کے تسلط کی وجہ سے کون سی مشکلات اور الجھنیں پیدا ہوتی رہی ہیں اور کیا وجہ ہے کہ منتخب وزیر اعظم پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے کے باوجود نہ تو خارجہ پالیسی بنانے کا مجاز ہے اور نہ وہ ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے حکمت عملی تیار یا تبدیل کرسکتا ہے۔

نواز شریف کو گزشتہ جولائی میں سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل قرار دئیے جانے کے بعد بھی ایک موقع ملا تھا۔ انہوں نے اس موقع پر ملک کی سیاسی قوتوں کو بعض آئینی اصلاحات کے لئے ساتھ ملانے کی کوشش بھی کی تھی لیکن آصف زرداری کی فوج کے ساتھ مصالحانہ سیاست اور نواز شریف کے ساتھ مخاصمت کی وجہ یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی تھی۔ پاکستان تحریک انصاف کو ملک میں انصاف کی فراہمی، نظام کی اصلاح، اداروں کی حدود کے تعین اور آئین کی بالادستی سے زیادہ نواز شریف کو چور ثابت کرکے عمران خان کو وزیر اعظم بنانے سے غرض تھی۔ پیپلز پارٹی ملک میں جمہوری روایت کو آگے بڑھانے کی کوشش کا حصہ دار بننے کی بجائے نواز شریف کا راستہ روکنے کے شوق میں انہی عناصر کا آلہ کار بنی جو اس ملک پر حکمرانی کے لئے سیاست دانوں اور پارٹیوں کو مہروں کی طرح استعمال کرتے رہے ہیں۔ اور سیاست دان اس کھیل کو سمجھتے ہوئے بھی برضا ورغبت اس کھیل کا حصہ بننے کے لئے آمادہ رہے ہیں۔ اس لئے اس وقت نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی کوششوں کا ناکام ہو جانا کوئی عجوبہ روزگار واقعہ نہیں تھا۔ اس کے بعد نواز شریف کو پہلے ’مجھے کیوں نکالا‘ اور پھر ’ووٹ کو عزت دو‘ جیسے نعروں کا سہارا لیتے ہوئے اپنے نظریاتی ہونے کا اعلان کرنا پڑا تھا۔ نواز شریف کے نظریاتی ہونے پر طویل مباحث کئے جا چکے ہیں لیکن اس دعویٰ کو یوں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ یہ اعلان کر رہے تھے کہ اب وہ اسٹبلشمنٹ کی سیاست کرنے کی بجائے ملک میں حقیقی جمہوریت کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں۔ ممبئی حملوں کے حوالے سے نواز شریف کے بیان اور اس پر سامنے آنے والے رد عمل نے انہیں ایک بار پھر یہ موقع دیا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کی مدد و تعاون کے بغیر ہی اس اصول کو سامنے لائیں کہ فوج کا ملک کے سیاسی امور سے کوئی لینا دینا نہیں ہونا چاہئے ۔ اگر ملک کو عزت و احترام سے زندہ رہنا ہے، اقوام عالم میں اس کی نیک نامی کو بحال کرنا ہے اور ہمسایہ ملکوں سے تعلقات کو بہتر بنانے کا اقدام کرنا ہے تو اس کا فیصلہ جی ایچ کیو میں نہیں، پارلیمنٹ میں ہو نا چاہئے۔ نواز شریف اگر اس وقت میڈیا کے دباؤ، سیاسی پارٹیوں کی مزاحمت اور فوج کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہو گئے تو یہ بیان ان کی آخری سیاسی غلطی ثابت ہو سکتا ہے۔

فوج کے پاس بھی نواز شریف کے بیان کے بعد بہت آپشنز موجود نہیں ہیں۔ اگر فوج سیاست دانوں کے ساتھ اختیار کی بندر بانٹ کے معاملہ کو انجام تک پہنچانا چاہتی ہے تو تردید اور مذمت اور لاتعلقی کے بیان سے کام نہیں چلے گا۔ بہتر ہو گا کہ آرمی چیف وزیر اعظم سے مطالبہ کریں کہ وہ نواز شریف پر غداری کے الزام میں مقدمہ قائم کریں۔ اس طرح ایک عدالتی فورم پر فوج یہ ثابت کرسکتی ہے کہ 2008 کے ممبئی حملوں میں ملوث عناصر کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں تھا اور نواز شریف نے یہ بیان دے کر فوج کو بدنام کیا اور دشمن کے سامنے ملک کی فوج کو کمزور کرنے کی کوشش کی تھی۔ ایسا مطالبہ سامنے نہ آیا تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ فوج اس معاملہ پر کھل کر بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اور ’قومی سلامتی اور ملکی مفاد‘ کے دیرینہ بیانیہ کی آڑ میں فضا کو غیر واضح اور اصل تصویر کو دھندلا رکھنا چاہتی ہے۔ اس صورت میں نواز شریف کا ممبئی حملوں کے بارے میں بیان ان کے مقبول نعروں ’مجھے کیوں نکالا اور ووٹ کو عزت دو‘ کا توڑ کرنے کے لئے سیاسی اور صحافتی ہرکاروں کے ذریعے استعمال کیا جائے گا۔ یہی ہتھکنڈے ملک میں جمہوریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ بنے رہے ہیں۔ فوج کے لئے یہ ہتھکنڈے موزوں ہیں کیوں کہ وہ اس قسم کا کھیل رچانے اور اسے جیتنے کا ہنر جانتی ہے۔ جمہوریت کا نعرہ لگانے والے سیاست دان ہی کھیل میں اس کے آلہ کار ہوتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی صورت میں نئی کنگز پارٹی کی تشکیل کا عمل اس حکمت عملی کا واضح ثبوت ہے۔

نواز شریف اور فوج اب’پوائینٹ آف نو ریٹرن‘ تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ نواز شریف نے ڈان کو دئے جانے والا بیان فوج کو یہ پیغام دینے کے لئے دیا ہو کہ ان کے ہاتھ میں بھی کئی پتے ہیں اور وہ بظاہر مذمت اور غداری کے الزامات کے باوجود فوج سے اپنے لئے سپیس حاصل کرنے میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسٹبلشمنٹ سے ٹکرانے کے دعوے سیاسی چال بازی کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ اور اگر فوج نواز شریف کو عدالت میں گھسیٹنے اور ممبئی حملوں کے حوالے سے ان کے بیان کو غلط ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرتی تو اس سے یہی سمجھا جائے گا کہ بظاہر تصادم کی سیاست میں کہیں نہ کہیں مفاہمت کے راستے کھولے اور فراہم کئے جا رہے ہیں۔ اس صورت میں پاکستان کی سیاست اور فوج اور سول حکومتوں کے درمیان چوہے بلی کا کھیل مزید 70 برس تک جاری رہے گا۔ فیصلے فوج کرے گی اور سیاست دان ان ٹکڑوں پر گزارا کرنے پر راضی رہیں گے جو ملک کے عسکری ادارے انہیں دینے پر آمادہ ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali