فوج میں برطرفیاں: گالیاں شیطان کو دیجئے گا


\"Syedمبارک ہو، مبارک ہو

خوابوں کے نئے دور کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔

خوابوں کی اپنی دنیا ہوتی ہے ایسے ہی جسیے دنیا کے خواب ہوتے ہیں۔ خوابوں کی زندگی ہوتی ہے بلکل ایسے ہی کہ جیسے زندگی کے خواب ہوتے ہیں۔ کچھ جرنیلوں کے بھی بڑے بڑے خواب تھے لیکن ایک خواب نے ان سب کو ملیا میٹ کر دیا۔ ویسے برگیڈئیر بھی آدھا جرنیل ہوتا ہے بھائی۔

خواب بنیادی طور پر تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک تو جاگتی آنکھوں سے دیکھا جانے والا خواب۔ دوسرا سوتے ہوئے دکھائی دینے والا خواب اور تیسرا روتے ہوئے دیکھا جانے والا خواب۔ باقی خواب ان ہی بنیادی شاخوں سے پھوٹتے ہیں۔ جن میں سے کچھ اہم اورمشہور خواب اس طرح کے ہو سکتے ہیں جن میں حسب ذائقہ کمی اور اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ جیسے بلی کا خواب، چوہے کا خواب، کبوتر کا خواب،ادھورا خواب، پورا خواب، قائد کا خواب، اقبال کا خواب، بادشاہت کا خواب، بادشاہ کا خواب وغیرھم ۔ پھر ان کو تعبیر کی نسبت سے دو اور خانوں میں فٹ کیا جا سکتا ہے جن کو جھوٹا اور سچا خواب کہا جا سکتا ہے۔

پھر کچھ لوگوں کا پسندیدہ کاروبار خواب دیکھنا ہوتا ہے ۔وہ صرف خواب دیکھتے ہیں۔ ان کے اسی کام کی وجہ سے کچھ استعارے مشہور ہو گئے ہیں جیسے خوابوں کی تجارت، خوابوں کی ارزانی اورخوابوں کا بوجھ وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب راستے تاجروں کو خوابوں کی جنت میں لے جاتے ہیں۔ جس کے بعد انہیں سونے کا چمچ اور چاندی کی تھالیاں ہی تھالیاں نظر آتی ہیں۔ خوابوں کے یہ تاجر اکثر بھینگنوں کو اپنی تھالی میں اتار لیتے ہیں ۔ پھر یہی تھالی کے بھیگن ان کے لیے پورے کے پورے ہیرے ثابت ہوتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ محبت بھی تو ایک خواب ہی ہوتی ہے جس کا درد بھی میٹھا میٹھا ہوتا ہے۔ کسی کسی کا نصیب ہوتی ہے لیکن جس کا نصیب ہوتی ہے اس کو رنگ دیتی ہے۔ آپ نے یہ بھی سنا ہو گا کہ محبت کچھ کچھ اندھی ہوتی ہے۔ اگر اس میں لالچ اور ہوس شامل ہو جائے تو پھر یہ بیچاری کچھ کچھ نہیں رہتی پوری اندھی ہو جاتی ہے۔ پیسوں کی محبت میں ان آشفتہ سروں نے وہ قرض بھی کھائے جو کہ واجب بھی نہ تھے۔

ابھی کل ہی کی تو بات ہے۔ سیاست دانوں کو خواب میں اکثر جنرل صاحب کا دیدار ہوتا رہتا تھا۔ کبھی ایمپائر کی انگلی نظر آتی تھی اور کبھی تو پورا ایمپائر ہی نظر آ جاتا تھا۔ بھلا ہو ایمپائر کا کہ وہ سب کو نظر آنے کے باوجود نظر نہیں آیا۔ کچھ نیک بختوں کو تو ایمپائر کی شکل میں قوم کا مسیحا بھی نظر آنے لگا تھا۔

فوج اور کرپش کے الزامات کوئی انہونی بات نہیں۔ ماضی میں بھی الزامات بہت تھے اب بھی کم نہیں۔ بات اراضی کی ہو، ہاو¿سنگ سکیم کی یا سرمایہ کاری کی یا پھر اختیارات کے استعمال اور فنڈز میں خرد برد کی یہ الزامات ماضی میں بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ تعداد میں اختلاف کے باوجود لیفٹینٹ جنرل عبیداللہ خٹک، میجر جنرل اعجاز شاہد، بریگیڈیر اسد شہزادہ، برگیڈئیر عامر، بریگیڈئیر سیف اور کرنل حیدر سمیت 11 فوجی افسران کی بدعنوانی کے الزام میں برطرفی بہرحال خوابوں اور حقیقت کی دنیا کے درمیان خلیج کو کم کرتی نظر آتی ہے۔

شاید پرویز مشرف کو اپنی شہرت کے جو خواب فیس بک کی لائکس دیکھ کر آئے تھے اس کے بعد ان خوابوں میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہو۔ فوج کی ماند اگر عدلیہ اور انتظامیہ کو بھی اچھے اچھے خواب آنا شروع ہو جائیں تو ممکن ہے کہ زرداری، نواز شریف، پرویز مشرف اور ایان علی جیسے دل چسپ کرداروں کو خوابوں کی دنیا میں چھولوں کی ریڑھی لگانی پڑے۔ پھر مال بیچنے کے لیے وقتاََ فوقتاََ یہ صاد بھی بلند کرنے پڑھے کہ \” خوابوں کی تجارت میں اگر وہ بھی ہوا تو اس بار ڈالروں کو بڑی آگ لگے گی\”

جنرل راحیل کا یہ خواب نہ جانے کس قدر سچا ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ بدعنوانی کو ختم کیے بغیر ملک امن و استحکام ممکن نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کچھ لوگوں کو اس واقعے کے فورا بعد جنرل صاحب پھر سے خوابوں میں آنا شروع ہو جائیں گے۔ ان کے خوبوں کی کشتی ایک بار پھر ابھرنا شروع ہو جائے گی۔ پریشان ہوں کہ میری خاک پھر جگنو نہ بن جائے۔

خوابوں کے لیے عموماََ اندھیروں کا انتظار کیا جاتا ہے۔ جب تیرگی کچھ بڑھ جائے تو جو خواب نظر آتے ہیں ان کہ گہرائی زیادہ ہوتی ہے۔ کچھ لوگ اس میں اپنے اعمال کی تیرگی بھی ڈال لیں تو انھیں شام کا انتظار بھی نہیں کرنا پڑتا۔ جنرل راحیل شریف دیگر بہت سی الجھنوں سے ذرا آزاد کیا ہوئے کہ کچھ لوگوں کو دن کی روشنی میں ہی تارے نظر آنا شروع ہو گئے۔

کہتے ہیں کہ خوابوں کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ پہلی قسم کو مبشرات کہا جاتا ہے یہی وہ سچے خواب ہیں جن کو رویائے صالحہ بھی کہتے ہیں۔ دوسری قسم وہ ہے جس میں انسان اپنے نفس سے ہمکلام ہوتا ہے۔ تیسری قسم وہ ہے جو ڈراونے خواب کہلاتی ہے۔ جن کو شیطان سے منسوب کیا جاتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جہاں تک ان ڈراونے خوابوں کا تعلق ہے جو شیطان کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں کہتے ہیں کہ ان کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی۔ آرمی چیف کے اس منفرد فیصلے کے بعد اگر کسی سیاستدان کو ڈراﺅنے خواب آنے شروع ہو جائیں تو مجھے معاف ہی رکھیے گا ۔ سیدھا الزام شیطان سے منسوب کر دیجئے گا۔ ایسے صورت حال میں\” لاحول \” پڑھ لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ امید ہے افاقہ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments