ہم، ہماری ماں اور ہمارا مدرز ڈے



آپ ایک اچھی ماں ہیں یا بری؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ماں تو بری ہو ہی نہیں سکتی۔ لیکن ہم ہر روز دیکھتے ہیں کہ ماؤں کے گلے میں تمغے یا طوق لٹکائے جاتے ہیں۔ اس کا فیصلہ معاشرہ آپکے بچوں کی معاشی ترقی اور کسی حد تک اخلاقی اقدار کو دیکھ کر کرتا ہے۔ عورت بچے پیدا کرتی ہے اور ان کی پرورش کرتی جبکہ خاندان بچوں کے کارنامے دیکھ کر ماؤں کی درجہ بندی کرتا ہے۔

بچہ وردی میں دہشت گردی کا نشانہ بن جائے تو قابل فخر ماں، پوری قوم کی ماں۔ بچہ رات کے اندھیرے میں کسی وردی والے کی گولی کا نشانہ بن جائے تو لاپرواہ ماں جو اولاد کو رات گئے باہر رہنے سے نہ روک سکی۔ بچہ ڈاکٹر، انجنیئر سرکاری ملازم یا پراپرٹی ڈیلر بن جائے تو محنتی ذمہ دار ماں اور جنت اس کے قدموں کے نیچے، بچہ ڈگری لے کر بھی بے روزگار ہو تو بے وقوف ماں جو آغاز سے اس کی سمت کا تعین نہیں کرسکی۔ بچی اپنا من مار کر خاندان کے منتخب کردہ کھونٹے سے جا بندھے تو شریف ماں، بچی اپنا فیصلہ خود کرے، اپنا شریک سفر چن لے تو جیسی ماں ویسی بیٹی۔ بدکردار۔ اگر بچہ نشے اور جرم کی دنیا میں چلا جائے تو بس بے نام ماں۔۔۔بلکہ ماں کے نام پر دھبہ۔۔۔پاؤں تلے سے زمین تو ویسے ہی نکل گئی، جنت بھی گئی۔

بالغ ہونے کے بعد بھی بچوں کے اعمال ماں کے کردار کا تعین کرتے نظر آتے ہیں حالانکہ ایک خاص وقت کے بعد ایک انسان کے اعمال کا ذمہ دار اس کے اپنے سوا کوئی نہیں ہوتا۔ کئی لوگوں کو کہتے سنا کہ گھریلو تشدد، جنسی ہراسانی، مذہبی جنونیت اور دیگر جرائم کی وجہ بچوں کی نامناسب تربیت ہے جس کی ذمہ دار ماں ہے۔ کہتے ہیں کہ ماں میں عقل نام کی چیز ہو تو وہ بچے کو آغاز سے ہی اچھے اور برے کا فرق سمجھا سکتی ہے۔

یہ بات درست ہے۔ ماں یہ سب کر سکتی ہے اور اسے کرنا چاہیے۔ لیکن کیا پاکستانی ماں یہ کر سکتی ہے؟ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی زیادہ تر خواتین ماں بننے کی اہل بھی ہیں؟ جسمانی طور پر ہاں۔ ذہنی طور پر نہیں۔اگرچہ پاکستان میں قانونی طور پر شادی کی عمر اٹھارہ سال ہے پاکستان میں شادی کی عمومی عمر پندرہ سے سترہ سال کے درمیان ہے۔ پاکستان ہیلتھ سروے 2013-2012 کے مطابق پندرہ سے انیس سال کی بچیوں کا آٹھ فیصد یا تو حاملہ ہے یا پہلے بچے کی ماں ہیں۔ پچیس سے انچاس سالہ خواتین میں سے پینتیس فیصد کی شادی اٹھارہ سال کی عمر میں ہوئی چون فیصد کی بیس سال کی عمر میں۔ یقیناً شہری علاقوں اور لڑکیوں کو تعلیم دلانے کا رحجان رکھنے والے علاقوں میں یہ شرح مختلف ہے۔ لیکن مجموعی طور پر پاکستان میں بچیاں بچے پیدا کر رہی ہیں۔ ہم اٹھارہ یا بیس سال کی بچی سے توقع نہیں کر سکتے کہ وہ جسمانی طور پر ماں بننے کے ساتھ ساتھ ذہنی طور پر بھی ماں بن جائے۔نہ ہی کوئی لڑکا بچہ پیدا کرنے کی وجہ ہونے کے باعث باپ بن سکتا ہے۔

خاندان شروع کرنے یا والدین بننے کے لیے کچھ لوازمات درکار ہوتے ہیں۔ صرف محبت سے بچوں کی ذہنی تربیت ممکن نہیں۔ ایک کمسن ماں کی اپنے بچے سے محبت ایسی ہی ہے جیسی مرغی اپنے چوزوں سے کرتی ہے، پروں میں چھپاتی ہے اور وقت آنے پر چیل پر جھپٹ پڑتی ہے۔ لیکن وہ انہیں مالک کی چھری سے نہیں بچا پاتی۔ پاکستانی مائیں اور بچے ساتھ ساتھ ہی بڑے ہوتے ہیں۔ کم عمری کی شادی، ناخواندگی اور ذہنی و جسمانی صحت کے مسائل کے باعث مائیں بچوں کو وہ سب نہیں سکھا سکتیں جو ہر بچے کو سیکھنا چاہیے۔ ایسے میں پاکستانی بچے خود رو جھاڑیوں کی طرح ہی بڑے ہوتے ہیں۔ کچھ پھلدار، کچھ پھولدار اور کچھ خاردار۔
ہم دیکھتے ہیں ایک طرف دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے بچے اپنی محنت کے بل بوتے پر اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کرتے ہیں اور دوسری طرف بے شمار مذہبی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے جلسوں کا ایندھن بنتے ہیں۔ یہ وہی بچے ہیں جن کو موقع ملے تو احتجاج کے نام ہر ہر چیز جلا کر راکھ کر دیتے ہیں اور مذہب کے نام پر انسانوں کو پتھروں سے کچل دیتے ہیں۔ یہ کوئی اٹھارہ سالہ بچے نہیں بلکہ ان میں ادھیڑ عمر کے وہ لوگ بھی شامل ہیں جو بڑے نہیں ہوئے۔
بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی قوم اپنا مستقبل پچوں کے ہاتھ میں نہیں دیتی۔ ہم نے ایسا کیا ہے۔ ماں کے ساتھ قربانی، ایثار،رحم اور بے لوث محبت جیسے جذبوں کو جوڑ کر اس سے انسان ہونے کا حق چھین لیا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ حکومت میں موجود خود کو تعلیم یافتہ اور اخلاقی اقدار کی حامل سمجھنے والے افراد کم عمر ماؤں سے قوم کی تربیت کی امید کرنے کی بجائے ان کی مدد کریں۔ اور یہ ریاست ہی کر سکتی ہے۔جب تک ریاست کی ترجیحات میں عوام کی ذہنی نشوونما شامل نہ ہو، عوام خود رو جھاڑیوں کی طرح پھلے پھولے گی جس میں خاردار جھاڑیوں کی تعداد زیادہ ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).