انڈیا: کرناٹک انتخابات کے بعد کانگریس کی حکومت کو کہیں ڈھونڈنا آسان کام نہیں


راہل گاندھی

کانگریس کو آئندہ برس کے پارلیمانی انتخابات میں علاقائی جماعتوں کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنا ہوگا

انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک کے اسمبلی انتخابات کے بعد کانگریس کی حکومت کو کہیں ڈھونڈنا ہو تو یہ کام آسان نہیں ہے۔

اب کانگریس صرف پنجاب اور دو بہت ہی چھوٹی ریاستوں پڈو چیری اور میزورم تک محدود رہ گئی ہے اور جیسا ایک تجزیہ نگار نے ٹی وی پر ایک بحث میں کافی زور دیکر کہا کہ اب وہ ملک کی صرف تقریباً ڈھائی فیصد آبادی پر حکمرانی کر رہی ہے۔

دوسری طرف بی جے پی ہے جس کی 21 ریاستوں میں حکومت ہے اور ملک کی تقریباً 70 فیصد آبادی پر اس کا راج ہے۔

لیکن کرناٹک میں کانگریس کی شکست سے کیا یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ سنہ 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی کی راہ بالکل صاف ہوگئی ہے؟

یہ بھی پڑھیے

’کرناٹک کی انتخابی بساط پر بہت کچھ داؤ پر‘

راہل گاندھی کا ‘پپو’ ٹیگ ختم!

اگر کرناٹک میں سیٹوں کا تناسب دیکھیں تو کانگریس کے مقابلے میں بی جے پی نے تقریباً دگنی سیٹیں حاصل کی ہیں لیکن ووٹوں کا تناسب ایک الگ ہی کہانی بیان کرتا ہے۔

(کانگریس اب بھی بیک ڈور سے حکومت میں شامل ہوسکتی ہے کیونکہ لگتا ہے کہ بی جے پی کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہو پائے گی لیکن اس کے لیے اسے ریاست کی تیسری بڑی جماعت جنتا دل سیکولر کی حمایت کرنا ہوگی جو پہلے ‘کنگ میکر’ بننا چاہتی تھی لیکن اب ‘کنگ’ بن سکتی ہے)

کانگریس، بی جے پی اور جنتا دل سیکولر کے نمائندے

اگر کرناٹک میں سیٹوں کا تناسب دیکھیں تو کانگریس کے مقابلے میں بی جے پی نے تقریباً دگنی سیٹیں حاصل کی ہیں لیکن ووٹوں کا تناسب ایک الگ ہی کہانی بیان کرتا ہے

کانگریس کو کرناٹک میں سنہ 2013 کے اسمبلی انتخابات کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ تفصیلی اعداد و شمار تو بدھ تک ہی سامنے آئیں گے لیکن فی الحال دونوں کا حصہ37 فیصد کے آس پاس ہے۔ (ہو سکتا ہے کہ کانگریس کے مجموعی ووٹ بی جے پی سے زیادہ نکلیں)

تو پھر کانگریس کی سیٹیں اتنی کم کیوں ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ کانگریس کو پوری ریاست میں ووٹ ملے ہیں، یا یہ کہیے کہ اس کے ووٹ یہاں وہاں بکھرے ہوئے ہیں، جبکہ بی جے پی کو مخصوص علاقوں میں ووٹروں کی حمایت حاصل ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

راہل گاندھی کا مودی پر جوابی وار

کیا ہندوتوا کے راستے کانگریس واپس آ سکتی ہے؟

اس کی وجوہات پر تو بحث اب شروع ہوئی ہے لیکن مضمرات صاف ہیں۔ کانگریس کو آئندہ برس کے پارلیمانی انتخابات میں علاقائی جماعتوں کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنا ہوگا، اور اسے اب یہ اعتراف بھی کرنا ہوگا کہ بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی کی کامیابیوں کے سلسلے کو وہ اکیلے نہیں روک سکتی۔

کرناٹک میں سابق وزیر اعظم دیوے گوڑا کی جماعت جنتا دل سیکولر نے تقریباً 20 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں، اور اس کی ایک وجہ مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی سے اس کا اتحاد بتائی جا رہی ہے۔

جنتا دل (ایس) اور کانگریس کے ووٹوں کو اگر جوڑا جائے تو وہ 55 فیصد سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ یہ ہی اب انڈیا کی نئی انتخابی حقیقت ہے۔ بی جے پی کے پاس اپنا ایک ووٹ شیئر ہے جو نظریاتی بنیاد پر اس سے جڑا ہوا ہے، وہ ادھر ادھر نہیں بھٹکتا۔ لیکن حزب اختلاف کے پاس بھی اپنا ووٹ شیئر ہے، بس فرق یہ ہے کہ وہ مختلف جماعتوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔

کانگریس کو اب اس بدلے ہوئے منظرنامے میں اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ اسی برس چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بھی الیکشن ہونے ہیں اورتینوں ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے۔

اور تینوں میں ہی بی جے پی اور کانگریس کے درمیان براہ راست مقابلہ ہوگا۔

لیکن تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اب کانگریس کو علاقائی سطح پر چھوٹی جماعتوں کو ساتھ لینا ہوگا کیونکہ اسمبلی کے انتخابات میں چند ہزار ووٹ بھی پورے الیکشن کا رخ بدل سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر وہ مدھیہ پردیش میں بی ایس پی کے ساتھ اتحاد کر سکتی۔ بی ایس پی اتر پردیش میں بہت طاقتور ہے لیکن دوسری ریاستوں میں اتنی مضبوط نہیں کہ صرف اپنے دم پر امیدواروں کو جتوا سکے۔ لیکن اس سے جڑے ہوئے چند ہزار ووٹ کسی بھی حلقے میں الیکشن کا نتیجہ بدل سکتے ہیں۔

کرناٹک کی شکست سے شاید کانگریس کے لیے یہ ہی سب سے اہم سبق ہے۔ بی جے پی کا پیغام تو بالکل واضح ہے۔ لیکن کانگریس کو اگر اس کے سامنے ٹکنا ہے یا وزیراعظم کے ‘کانگریس سے آزاد ملک’ کے خواب کو پورا ہونے سے روکنا ہے، تو اسے اس بدلی ہوئی حقیقت سے سمجھوتہ کرنا ہوگا۔

اب قیادت کے دعویدار اور بھی ہیں اور 2019 کے پارلیمانی انتخابات کے لیے الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp