بابا رحمتے


“چپ کرو حرامی اولاد” کلثوم نے شور مچاتے بچوں پر چیختے ہوئے کہا۔

“کیا ھوا”، گھر داخل ھونے پر ان کا مرجھایا ہوا چہرا دیکھ کر وہ بولی۔

“کچھ نہیں” کہ کر وہ جلدی سے سونے والے کمرے میں داخل ھو گیا، اور شام دیر گیےٴ تک باھر نہ آ یا۔”

اس کی بیوی کا “اَجی سنیے” اس کے منہ ھی میں رہ گیا۔

 وہ چپ چاپ پھر سے سبزی کاٹنے لگ گئیی۔ کتنے خوش تھے اس کے ماں باپ جب سات سال پہلے انہوں نے اس کی شادی کی تھی۔ “دیکھنے میں ھی بڑا افسر لگتا ھے” اس کے باپ نے دمکتے چہرے کے ساتھ اس کی ماں سے کہا تھا۔ جب وہ کلثوم کی اس کے ہونے والے شوھر کے گھر والوں سے بات پکی کرکے اٗئے تھے۔اِس بات پر اس کی ماں نے پیار سے کلثوم کا پہلے ماتھا چوما، پھر اس کے گال اور بولی “ھماری کلثوم بھی کچھ کم پیاری تو نہیں”۔

اس کے چچا کا دس پڑھا بیٹا جو برسوں سے اس سے شادی کا خواہاں تھا دلبرداشة ھو کر گاوٗں چھوڑ کر چلا گیا اور جا کر بڑے شہر میں جوتے بنانے والی فیکٹری میں نوکری کر لی۔ وہ اِتنا دکھی ہوا کہ اس کی شادی پر بھی نہ آیا۔ مگر وہ اس دن کتنی بیتاب رہی تھی۔بار بار نظر اٹھا کر باھر دیکھتی رہی۔ مگر جسے ناں آنا تھا، ناں آیا۔

پھر بارات آگئی اور اس کی سہیلیاں آکر اسے بارات کے بارے میں خبریں دینے لگیں۔

“سارے کے سارے باراتی ہی بابو ٹائپ لگتے ہیں”

“بات اتنی آہسة کرتے ہیں کہ دوسرے کو سنائی نہ دے۔”

“دلھا تو دلھا اس کا تو باپ بھی افسر لگتا ہے۔”

” اور پھر وہ اس کی کار میں بیٹھ کر دور کے شہر روانہ ہو گئی۔

پَر اِس بات کو جیسے زمانے بیت گئیے ہوں۔ پچھلے سات سال میں اس نے چھ بچوں کو جنم دیا۔ چھوٹے بچوں کے اِتنے چھوٹے چھوٹے کام تھے کہ اس کو اپنا ہوش رہا نا کسی اور کا۔ کِسی کو دودھ پِلِاوٗ، کِسی کو نہلاوٗ، کِسی کو کپڑے پہناوٗ، کِسی کو کھانا دو، کِسی کو کہانی سنا کے سلاؤ۔

بیچ میں دن بھر محلے کی عورتیں آتی رہتیں، کچھ گپ لگانے، زیادہ تر سفارشیں لے کر۔ اپنے مقدموں کی، رشة داروں کے مقدموں کی، جاننے والوں کے مقدموں کی، جاننے والوں کے جاننے والوں کے مقدموں کی سِفارشیں۔

مقدمے جو مہینوں، سالوں، عشروں اور صدیوں سے چل رہے تھے۔ قتل کے مقدمے، چوری کے ، لوٹ کے، زمین کے، زنا کے، توہین کے، دہشت گردی کے، سبزے کے، قبضے کے، سبزے پہ قبضے کے، گولی مارنے، لاٹھی مارنے، لات مارنے، آنکھ مارنے کے مقدمے، ذاتوں، برادریوں کے مقدمے، مَرگوں باراتوں کے مقدمے، بہوؤں دامادوں کے مقدمے، زبانوں علاقوں کے مقدمے، فرقوں اعتقادوں کے مقدمے۔۔۔ ان گنت مقدمے۔۔۔۔

مقدمے جن کو دآیر کرنے والے کب کے اِس جہان سے جا چکے تھے ساری تاریخیں اور پیشیاں سینے میں لیے۔ ساری فَایلوں کے نمبر، ساری فیسوں کا حساب دبائے، سارے وکیلوں کے نام چھاتی میں چھپائے۔ وہ خود تو اِس جہان سے کوچ کر گئے مگر راتوں کو قبروں سے اٹھ اٹھ کے اَتے وہ اپنے پیاروں کے خوابوں میں، ان کو یاد دلانے کہ کونسے مقدمے کی ابھی کتنی تاریخیں باقی ہیں،کون سے وکیل کو کتنے پیسے دیے تھے مرنے سے ایک دن پہلے، کون سے جج صاحب کے کہاں والے پیر صاحب کے ذریعے کیا بات ہوئی تھی مقدمے کے فیصلے کے بارے میں، اگر اِس کورٹ سے فیصلہ حق میں نہ آیا تو اَگے کِس کورٹ میں کون سے وکیل صاحب کی مدد سے کیا کیس کرنا ہے۔ خوابوں میں آنے والے دنیا سے جا چکے عزیزوں کی شکلیں یاد کر کے پیچھے والے اِن مقدموں کو جانے والوں کا قرض سمجھ کر اتارنے کیلیے اپنی جانیں بھی گنوانے کی غرض سے انہیں دن رات ہلکان کر رہے تھے۔ دن بھر وکیلوں کے دفتروں، تھانوں اور عدالتوں کے چکر لگا کر، اور رات بھر اپنی روحوں کو اِن مقدموں کی یادوں سے زخمی کر کے۔

“بھائی صاحب سے کہنا ہمارے لئیے کچھ کریں”

“بہن اَللہ تجھے سکھی رکھے، میرا خیال کرنا۔”

بیٹا ہم غریبوں کا اَللہ اور بھائی صاحب کے علاوہ ہے ہی کون”۔”

ایسے منت سماجت اور دعائیں کرتی یہ عورتیں رخصت ہوتیں تو اس کا دل ان کے غم سے بھر اَتا۔ آج تو ضرور ان سے بڑی آپا کا مسئلہ کہوں گی۔ شمیم بیچاری کا تو خاندان برباد ہوگیا اِن مقدموں سے۔ ضرور ان سے کہوں گی کچھ کریں۔

ایسے لمحوں میں وہ اپنے آپ کو، بچوں کو، ان کی چیخ و پکار کو، اپنے چچا کے بیٹے کو، شادی کے سات سالوں کو، ان کے ہر مہینے کو،دن کو، اور ان سب لمحوں کو جو صدیوں پر محیط تھے بھول جاتی۔ بھول جاتی کہ کتنی شامیں اس نے ایک خشک پتھر کی طرح اِس بیابان ویرانے کی چلچلاتی دھوپ میں نامراد گزاری تھیں،

یاد رکھتی تو فقط ان عورتوں اور ان کے گھر کے مردوں کی کہانی جن کی زندگیوں کو نہ ختم ہونے والے مقدموں نے ایک مقدمہ بنا دیا تھا۔ وہ بےچینی سے دروازے کی طرف تکتی رہتی کہ کب وہ گھر آییں گے۔ پھر جب سورج ڈھلنے سے ذرا پہلے دروازہ کھول کر وہ داخل ہوتے تو وہ بے تابی سے ان کے چہرے کو دیکھتی اور اس پہ وہ رنگ ڈھونڈنے کی کوشش کرتی جو ہزاروں مقدموں والوں کوزندگی کی امید دلاتا تھا۔ مگر وہ رنگ اسے کبھی نظر نہ آیا کہ شائد وہ سورج کے ساتھ ہی ان کے چہرے سے بھی غروب ہو جاتا تھا۔

اِس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی۔

سارا نظام ہی بگڑا ہوا ہے۔” کہہ کر وہ سونے والے کمرے میں چلے جاتے۔”

صبح جلدی جلدی اٹھ کے وہ ناشة تیار کرتی۔ جب وہ نہا کر اور کالا سوٹ پہن کر باہر اَتے تو ان کا منہ مقدمے جیسا ہو چکا ہوتا۔ ایسے لمحوں میں وہ بہت ڈرتی تھی۔ اِس ڈر سے کہ کہیں اس پر بھی کوئی مقدمہ نہ بن جائے یا بنا دیا جائے۔

ڈرتے ڈرتے وہ پوچھتی، “اَج کب واپس اٗ ئییں گے”۔ تو جواب اَتا۔

“مت پوچھو! سارے حرامزادے ہیں اِس ملک میں “

ایک بار تو حد ہی ہو گئی جب اس نے پوچھا۔

“اَج کب واپس آئیں گے”

 سارے حرامزادے ہیں اِس ملک میں” انھوں نے کہا۔”

کب سدھرے گا یہ ملک آخر، کب ہم چین کی نیند سوئیں گے، مارننگ شو کے بہت ہی جذباتی میزبان نے شوخی بھرے غصے سے کہا۔

ہاں یہی میرا سوال ہے” وہ اچھلتے ہوئے گرج کر برسے، اَنکھیں غصے سے لال، اس کی طرف تکتی ہوئی۔ تو وہ ڈر سی گئی کہ جیسے اسی کا قصور تھا۔

یونہی مہینوں پہ سال، سالوں پہ عشرے گزرتے رہے، بچے شور کرتے رہے، روتے رہے، عورتیں اَتی رہیں مقدموں کی باتیں اور منتیں سماجتیں کرتی رہیں، وہ دفتر جاتے رہے۔ جاتے رہے اور تھکے ہارے اَتے رہے۔ اَتے اور کمرے میں جا کر سو جاتے۔

رات کو سوتی تو خواب میں آوازیں آ تیں۔

” بہن میرا خاوند کراچی سے زندہ نہ پلٹا”

“میری بیٹی کو پنچایت والے بلا لے گیے”

“میری زمین کا ناجایزٗ قبضہ لے گیے”

“میرا پوتا دھماکے سے واپس نہ آیا”

“میرے بھائی کو توہین والے اٹھا لے گیے”

عورتیں تو شام کو چلی جاتیں مگر رات بھر اسے آوازیں آتیں، اِتنی آوازیں کہ خود پر قابو نہ رکھ پاتی اور خواب میں زور زور سے بڑبڑاتی۔ “حوصلہ بہن آج میں ضرور ان سے کہوں گی کہ کچھ کریں۔” ایک رات کو وہ ایسے ہی زور زور سے چیخ رہی تھی جب انہوں نے اسے جنجھوڑ جنجھوڑ کے اٹھایا۔ ابھی اس کی آنکھ پوری طرح کھلی بھی نہیں تھی جب ان کی چیختی ہویئی آواز سنائی دی۔

“بتاوٗ کیا بتانا چاہتی ھو تم مجھے، کیا کروانا چاہتی ہو۔کیوں روز کی نیند حرام کرتی ہو”

ان کے چہرے کا غصہ اور آنکھوں کی لالی دیکھ کر وہ آدھی جاگی آدھی سوئی بولی “کچھ بھی تو نہیں۔”

منجھلے کی بیماری میں ہر کسی نے، ہر طرح کے مشورے دیے، مگر نہ انہوں نے پہلے کسی کی سنی تھی نہ اب۔ “جب تک یہ نظام ٹھیک نہیں ہو گا، کچھ نہیں ہو سکتا”۔

وہ اپنے کے معمول کے مطابق روزانہ صبح اٹھ کر مقدمے جیسے منہ کے ساتھ، زہر جیسی چائے کا پیالہ پی کر، روز اسی وقت پر جاتے رہے، جیسے کویئی بابو جاتا ہے، کویئی افسر جاتا ہے، اپنے دفتر جاتا ہے۔

جب مقدموں کی شکایتیں اور سفارشیں لے کر آنے والی سب عورتیں تھک گیں، امید مٹا چکیں، ہمت ہار چکیں، بیمار پڑ گیں، مقدمے بھی کب کی بھلا چکیں، جب آنے والے بوڑھے ان کے انتظار میں بیٹھ بیٹھ کر، تھک کے، مایوس ہو کر کَب کے جا چکے۔

اور منجھلے کے علاج کے سارے نیک مشورے کب کے بھلاے جا چکے، اور اس کی سب امیدیں دم توڑ چکیں، تو ایک دن وہ وقت سے بہت پہلے، اَپنے ہمیشہ لوٹنے کے وقت سے کہیں پہلے، مقدمے والی عورتوں کے گھر واپس جانے کے وقت سے بہت پہلے، سیانے بوڑھوں کے لوٹنے سے بہت پہلے، شام کے ڈھلنے سے پہلے، سورج غروب ہونے سے کہیں پہلے وہ واپس آگئیے۔ ان کا چہرہ دمک رہا تھا ایک عجیب سی روشنی سے۔

کھانا دو، وہ بولے تو اس کے پاؤں سے زمین نکل گئی کہ وہ تو مدت سے دوپہر کا کھانا بنانا بھول چکی تھی۔ اور جب وہ کھانا کھا رہے تھے ساری مقدمے والیی عورتیں اور سارے بابے ان کو ٹک ٹک دیکھ رہے تھے حیرانی سے، اور کچھ امید سے۔ جب وہ بولے تو سب کی جیسے سانس رک گئی ہو۔ ہر کوئی بے تابی سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔

“دیکھنا چھوڑوں گا نہیں۔ چیف نے کہا ہے انصاف کرو۔ سب کتوں کا حساب کرو”

وہ گرتے گرتے مشکل سے سنبھلی۔ سانس جیسے رک سی گئی، نبض جیسے تھم سی گئی۔ بہت سے قدموں کی دھم دھم کی آوازیں، دور جاتے قدموں کی آوازیں اس کے دل کو چیرتی ہوئی، آہسة آہسة جب مدھم سی چاپ میں بدل گئیں توایک سیانے بابے کی آواز آئی۔

میں نے کہا تھا نہ ایک دن ضرور انصاف ہوگا۔

“کس کے لئے؟” ایک بہت ہی نحیف بڑھیا آہسة سے بولی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).