کرنل جوزف: سو پیاز اور سو جوتے


امریکہ کے اسلام آباد میں تعینات دفاعی نمائندے ،کرنل جوزف، کے معاملے کو میں ایک Developing Story سمجھ رہا تھا۔ نظر بظاہر اس نے سرخ بتی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی گاڑی سے ایک پاکستانی نوجوان کو ٹکر مارکر ہلاک کردیا تھا۔ واقعہ یقینا حادثہ تھا مگر غیر ذمہ دارانہ ڈرائیونگ کی وجہ سے کم از کم نادانستہ قتل ضرور تھا۔ پولیس نے مقدمہ درج کرکے کرنل کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تو اس کا سفارتخانہ متحرک ہوگیا۔ ویانا کنونشن کا حوالہ اس کی فوری رہائی کی وجہ بنا۔ بدنصیب نوجوان کے لواحقین نے مگر عدالت سے رجوع کرلیا اور وہاں سے فیصلہ نہ ہوجانے تک کرنل جوزف کو پاکستان ہی میں موجود رکھنے کی خاطر  ECLکی بات چلی۔

گزشتہ ہفتے امریکہ نے مگر اپنا ایک طیارہ کرنل جوزف کو لینے کے لئے راولپنڈی بھیج دیا۔ پانچ گھنٹے انتظار کے بعد اس جہاز کو کرنل کے بغیر جانا پڑا کیونکہ متعلقہ اداروں نے اسے پاکستان سے روانگی کے لئے NOCدینے سے انکار کر دیا۔ ہفتے کی صبح ہمارے تمام اخبارات نے امریکہ کو انکار کی شہ سرخیاں لگائیں۔ قومی حمیت سے معمور دل شاد ہو گئے۔

مجھ بدنصیب کو مگر فکر لاحق ہوگئی کہ ہماری خوشی بہت عارضی ثابت ہو گی۔ میں اور آپ پسند کریں یا نہیں ایک ویانا کنونشن ہوتا ہے۔ اس کے تحت غیر ممالک میں تعینات سفارت کاروں کو چند مستثنیات کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ ذاتی طورپر ان میں سے چند ایک کو میں قطعاَ ناجائز سمجھتا ہوں۔ سفارت کار مگر ریاستی اشرافیہ میں شمار ہوتے ہیں اور اشرافیہ نام ہی بے پناہ اختیارات اور Privilegesکا ہے۔ ویانا کنونشن کے ہوتے ہوئے لہذا کرنل جوزف کوپاکستان کے عدالتی عمل کے روبرو لانے کی گنجائش موجود نہیں تھی۔ ”کمپنی کی مشہوری“ کی خاطر ہمارے چند لوگ مگر ڈٹ گئے۔ نتیجہ مگر سوپیاز اور سوجوتے کی صورت برآمد ہوا۔

منگل کی صبح شائع ہونے والے کالم میں جان کی امان پاتے ہوئے میں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ کرنل جوزف ریمنڈ ڈیوس نہیں ہے۔ ریمنڈ ایک پرائیویٹ کمپنی کے توسط سے آیا اہل کار تھا جو کسی صورت بھی امریکی ریاست کا باقاعدہ نمائندہ نہیں تھا۔ اس کے ہاتھوں لاہور میں نوجوان قتل ہوئے تو امریکی صدر نے اسے ”سفارت کار“ کہتے ہوئے ویانا کنونشن کا حوالہ دینا شروع کردیا۔ ہماری حکومت مگر ڈٹی رہی کیونکہ امریکہ کے پاس ریمنڈ ڈیوس کو ”سفارت کار“ ثابت کرتے ٹھوس حقائق موجود نہیں تھے۔ بالآخر جان کیری نے دیت قوانین کا سہارا لیا۔

کرنل جوزف پر دیت والا فارمولا دہرایا نہیں جاسکتا تھا۔ کیونکہ وہ امریکی فوج کا ایک باقاعدہ ملازم ہے اور سفارت کاری کے تمام تقاضوں کے مطابق اسلام آباد میں اپنے ملک کا ملٹری اتاشی تعینات ہوا تھا۔ اس کے واقعے کو قومی حمیت کی وقتی تسکین کی خاطر خواہ مخواہ اچھالا نہ جاتا تو غیر رسمی بات چیت کے ذریعے امریکی سفارت خانے کو ہلاک شدہ نوجوان کے لواحقین کی کفالت کے لئے معقول رقم دینے پر آمادہ کیا جاسکتا تھا۔ ہمارے چند اہل کاروں نے مگر اس امکان کو وقتی جوش برپا کرتی ہیڈلائنز کی خاطر گنوادیا۔

ایک صحافی ہوتے ہوئے اصل شکوہ مجھے یہ ہے کہ پل پل کی خبر دینے والے میرے نوجوان ساتھیوں میں سے کسی ایک رپورٹر نے بھی پیشہ وارانہ لگن اور جستجو کے ساتھ یہ پتہ نہیں لگایا کہ گزشتہ ہفتے جب امریکی طیارہ کرنل جوزف کو لئے بغیر چلا گیا تو کون سے امریکی ادارے نے کس پاکستانی ادارے سے رابطہ کیا۔ یہ فیصلہ کیوں اور کس اجلاس میں ہوا کہ کرنل جوزف کو پاکستان چھوڑ دینے کی اجازت دی جائے۔

پیر کا سارا دن تو ویسے بھی نواز شریف کی نذر ہوگیا۔ ان کے انٹرویو کی مذمت کرنے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اس اجلا س کے بعد جاری ہوا بیان اور بعدازاں اس بیان کے بارے میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی بدتر از گناہ مارکہ وضاحتیں۔ ان وضاحتوں کے ہوتے ہوئے بھی نواز شریف نے بونیر کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ایک قومی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کردیا جو یہ طے کرے کہ وہ غدار ہیں یا نہیں۔ غدار ثابت ہونے کی صورت میں وہ برسرِ عام پھانسی لگنے کو تیار ہیں۔

نواز شریف کی جانب سے قومی کمیشن کے قیام کے مطالبے پر حیرت ہوئی۔ اپریل 2016 میں پانامہ دستاویزات کے منکشف ہونے کے بعد بھی انہوں نے ایسی ہی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ اقامہ کی بنیاد پر نااہل ہوگئے۔ ان دنوں احتساب عدالت کی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ اس تجربے کے بعد انہیں قومی کمیشن والا مطالبہ کرنے سے باز رہنا چاہیے تھا۔ وہ لیکن اس ضمن میں ڈٹے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی تو شاید یہ کمیشن بنانے کو تیار نہیں ہوں گے۔ 31 مئی کے بعد آنے والی نگراں حکومت مگر عمران خان کے مطالبے پر نواز شریف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت بغاوت کا مقدمہ ضرور قائم کرسکتی ہے۔

میری دیانت دارانہ رائے ہے کہ مجوزہ مقدمہ ہر صورت قائم ہونا چاہیے۔ پاکستان کے تیسری بار منتخب ہونے کے فوری بعد سے نواز شریف پر تسلسل کے ساتھ ”مودی کا یار“ ہونے کا الزام لگایا جارہا ہے۔ ان کے مخالفین بضد ہیں کہ شریف خاندان کی چند بھارتی صنعت کاروں کے ساتھ محض شناسائی نہیں باقاعدہ کاروباری شراکت ہے۔ اندھی نفرت اور عقید ت میں بٹے ہمارے معاشرے میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جو ان الزامات کو مبنی برحق سمجھتے ہیں۔ عام افراد چسکہ بھری غیبت، چہ مہ گوئیوں اور کہانیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

ہمارے ہاں مگر احتساب بیورو نام کا ایک ادارہ بھی ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک بہت ہی لائق فائق مانے ریٹائرڈ جج اس ادارے کے سربراہ ہیں۔ اس ادارے نے چند ہی روز قبل ایک باقاعدہ پریس ریلیز کے ذریعے اعلان کیا کہ وہ نواز شریف کی جانب سے 2016 میں بھارت کو 4.9 ارب ڈالر کی خطیر رقم بھیجنے کے الزامات کی تحقیق کررہا ہے۔

اس پریس ریلیز کے بعد مچی ہاہاکار کے باوجود چیئرمین نیب اور ان کا ادارہ بضد ہیں کہ مذکورہ الزام تفتیش طلب ہے۔ عمران خان صاحب جس مقدمے کا مطالبہ کر رہے ہیں اس میں لگائے الزامات میں 4.9 ارب ڈالر کی منتقلی بھی چارج شیٹ کا حصہ ہونا چاہیے۔ وقت آگیا ہے کہ نواز شریف کے خلاف ”مودی کا یار“ ہونے کے ٹھوس ثبوت ہماری ریاست کے پاس موجود ہیں تو انہیں عوام کے سامنے لاکر مجاز عدالتوں کے ذریعے سزا کا بندوبست کیا جائے۔ فقط وٹس ایپ کے ذریعے پھیلائی افواہوں سے اب کام نہیں چلے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).