جیو ماہرہ خان


سیانے کہتے ہیں کہ قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا لکھتے رہنا۔ ہم اس بات سے متفق تھے اور اسی لئے کم لکھنے پر اکتفا کرتے تھے۔ بہرحال تجربے سے یہ بات ثابت ہوئی کہ کم لکھنے سے بھی قدر کو کوئی خاطر خواہ افاقہ نہیں ہو رہا تھا۔ لہذا ہم کیوں اس پنگے میں پڑیں۔ روز لکھیں گے اور بہت لکھیں گے۔ پڑھنا آپ کی صوابدید ہے۔

امی بتاتی ہیں کہ ہم بچپن ہی سے حسن پرست تھے۔ پیاری باجیوں سے تمیز سے پیش آتے تھے۔ خوبصورت گھروں میں جاتے ہی انتہائی با ادب ہو جاتے تھے۔ چائے بسکٹ بھی قرینےسے کھانے لگتے تھے۔ شکر ہے بچے نہیں پیدا کئے ابھی تک۔ ورنہ قرین قیاس ہے کہ بیٹے کا رشتہ ڈھونڈنے کے لئے جگہ جگہ سموسے کھاتے پھرتے۔ اپنے لنگور سے بیٹے کے لئے ایشوریہ رائے ہی کو چنتے۔

فلم اسٹار ریما ہوں یا ایشوریہ رائے، ہم شروع سے حسین ایکٹریسز کے فین رہے ہیں۔ خدا گواہ ہے کہ ان کی اداکاری یا کام سے کبھی سروکار نہیں رہا۔ ریما کا چمکتا چہرہ اور ایشوریہ کی کنچوں جیسی چمکتی آنکھیں ہی بہت تھیں۔ آرٹ فلموں سے کوسوں دور رہتے کہ ہم تو پردہ اسکرین پر جھلملاتے کپڑوں اور حسین ہیروئن سے آگے کچھ نہ چاہتے تھے۔ پرفارمنس پر کون دماغ کھپاتا۔ ریما ہماری دیوی تھیں۔ اسی مندر میں ایک کمرہ ملکہ حسن ایشوریہ رائے کی بھی ملکیت تھا۔ ان کی شادی پر ہم نے ان دونوں کے دلہاوں کو بالکل ایک ماں کی نظر سے دیکھا۔ بھلا کوئی کہاں قابل تھا ہماری شاہزادیوں کے۔

کچھ ہی سال پہلے پردہ سیمیں پر ایک دھان ہاں سی لڑکی جلوہ افروز ہوئی۔ بڑی بڑی بھوری آنکھیں اور شرمیلی مسکراہٹ۔۔ یہ تھی ماہرہ خان۔ ہمسفر ڈرامہ کرتے ہی پاکستان تو کیا بھارت کے دل کی بھی رانی بن بیٹھی۔ پیاری تھی لیکن ہمارے سنگھاسن پر تو کوئی اور تھا۔ ماہرہ کا ڈرامہ ہم نے غور سے نہ دیکھا کہ ناول پہلے ہی پڑھ چکے تھے اور ڈرامہ دیکھ کر اپنا تخیل بدلنا نہیں چاہتے تھے۔ جلد ہی ماہرہ خان فلموں میں بھی آنے لگیں۔ دشت تو دشت تھے، دریا بھی نہ چھوڑے اس نے۔ شاہ رخ خان کی فلم میں ہیروئن آ گئیں اور سب کو حیران و پریشان کر گئیں۔

یہاں واضح رہے کہ ہم کبھی بھی ان کے فین نہ تھے۔ اسٹائلش تھیں۔ پاک و ہند میں بکنے والے امیج کے مطابق ستی ساوتری بھی دکھتی تھیں۔ اور ہمیں ایسی ہیروئینز ہمیشہ سے بورنگ لگی ہیں۔ کوئی تو چنگاری ہو جو بھڑکے۔ یہ کیا دوپٹہ لپیٹی دلہن جو ہر دم شرماتی لجاتی ہی رہے۔

کچھ ہی عرصے میں ماہرہ خان کی بھارتی اداکار رنبیر کپور کے ساتھ کچھ تصاویر منظر عام ہر آئیں جنہوں نے ایک بھونچال مچا دیا۔ ہر کوئی ان پر طرح طرح کے الزام لگانے لگا اور اپنی بولی بولنے لگا۔ ماہرہ نے کوئی جواب دینے سے گریز کیا اور خاموشی کو بہتر جانا۔ کچھ عرصے بعد بی بی سی پر دئے جانے والے ایک انٹرویو میں انہوں نے اپنا نکتہ نظر بیان کیا اور ہماری نظر ان پر پڑی۔ لڑکی میں دم تو تھا۔ لوگوں کا طوفان اس قدر گرم تھا کہ ہم جیسے صحافیوں کو بھی نہ چھوڑا جو اس وقت ماہرہ کے ساتھ کھڑے تھے۔

آسمان کا تھوکا منہ پر ہی پڑتا ہے۔ لوگ بولتے رہے اور ماہرہ کا قافلہ گزرتا رہا۔ وہ شہرت کی نئی منزلیں طے کرتی رہی اور ایک دن مشہور فرانسیسی فلم میلے کانز میں جا پہنچی۔ پاکستان سے جانے والی پہلی ایکٹر تھی۔ ذرا سی دیر کو ہمارا سر بھی فخر سے بلند ہوا لیکن نکتہ چینی سے باز نہ رہ پائے۔ ماہرہ کی اسٹائلنگ میں نقص دکھنے لگے۔

لیکن شاید ہماری دل کی آنکھ کھلی رہتی ہے۔ ہمیں جلد ہی احساس ہوا کہ ماہرہ خان نے اس بھیڑ چال کا حصہ بننے سے انکار کیا جو کانز کا خاصہ ہے۔ وہ چاہتی تو ایک سے ایک بڑے انٹرنیشنل ڈیزائنر اور اسٹائلسٹ کی مدد لے سکتی تھی۔ لیکن وہ وہی رہی جو وہ ہے۔ اسی لاابالی پن سے پاکستانی ڈیزائنرز کے کپڑے پہنے نظر آئی جو پاکستان میں اس کی شخصیت کا اہم جزو تھا۔ اپنے انداز و اطوار میں بھی ویسی ہی رہی جیسی اپنے ملک میں تھی۔ ہمارے لوگ پاکستان سے باہر جا کر جس مرعوبیت سے لبریز ہو جاتے ہیں وہ ماہرہ کو چھو کر بھی نہیں گزری۔ ماہرہ کانز میں اکیلی نہیں گئی بلکہ اپنے ملک کی فیشن انڈسٹری کو ساتھ لے کر گئی۔ کانز میں صرف ماہرہ ہی نہیں تھی بلکہ اس کی پوری پاکستانی ٹیم بھی تھی۔ اس خوشی پر سب کا حق تھا اور ماہرہ نے اپنی ذمےداری کو خوب سمجھا۔ آج پوری دنیا ان پاکستانی ڈیزائنرز اور اسٹائلسٹس کو جانتی ہے جنہیں آج سے پہلے اپنے ملک میں بھی سب نہ جانتے تھے۔ لوگ ایوارڈ جیتتے ہیں۔ اس لڑکی نے دل جیتے۔

ہمارے دل کے مندر میں آج ہی ایک اور کمرہ تعمیر ہوا ہے۔ اس پر ماہرہ خان کے نام کی تختی ہے۔ اس دفعہ کا کرائیٹیریا صرف ظاہری حسن نہیں بلکہ دل کا اجلا پن بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).