انڈیا: کرناٹک میں بی جے پی جیت کر بھی ہار گئی


کمارا سوامی اور سدھا رمیا

کمارا سوامی اور سدھا رمیا نے مل کر حکومت سازی کا دعوی پیش کیا ہے

انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک کے اسمبلی انتخابات میں کسی بھی پارٹی کو اکثریت نہ ملنے کے بعد وہاں کس کی حکومت بنے گی یہ ایک پیچیدہ سوال بن گیا ہے۔

انتخابات میں بی جے پی نے سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کیں اور کانگریس اس سے کافی پیچھے رہ گئی لیکن جس وقت وہ حکومت سازی کا دعویٰ کرنے کی تیاری کر رہی تھی، ایک ڈرامائی سیاسی قدم اٹھاتے ہوئے کانگریس نے ریاست کی تیسری پارٹی جنتا دل سیکولر کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کر کے بی جے پی کو سکتے میں ڈال دیا۔

بی جے پی اور جنتا دل – کانگریس، دونوں گروپوں نے حکومت بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ اب ساری نگاہیں گورنر پر مرکوز ہیں کہ وہ سب سے بڑی پارٹی کو حکومت سازی کی دعوت دیتے ہیں یا سب سے بڑے گروپ کو۔

یہ بھی پڑھیے

کانگریس کو کہاں ڈھونڈیں؟

’کرناٹک کی انتخابی بساط پر بہت کچھ داؤ پر‘

224 رکنی اسمبلی میں 222 سیٹوں کے لیے انتخابا ت ہوئے تھے۔ واضح اکثریت کے لیے 112 سیٹوں کی ضرورت تھی۔ بی جے پی کو 104 سیٹیں ملی ہیں۔ حکمراں کانگریس 78 پر سمٹ گئی ہے جبکہ تیسری جماعت جنتا دل سیکولر 38 سیٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ دو آزاد امیدوار بھی ہیں جو کانگریس کے ساتھ ہیں۔

تینوں بڑی جماعتوں نے الگ الگ انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ نتائج میں آخری وقت تک لگ رہا تھا کہ بی جے پی واضح اکثریت حاصل کر لے گی اور اسی اطمینان میں وہ دھوکہ کھا گئی۔ اس کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ معلق نتائج کی صورت میں کانگریس اپنی حریف جماعت جنتا دل کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کر دے گی۔ اس غیر معمولی ڈرامائی صورتحال کے لیے بی جے پی تیار نہیں تھی۔

یہاں آئینی ماہرین اور سسیاسی مبصرین اس پہلو پر بحث کر رہے ہیں کہ گورنر کو کیا کرنا چاہیے۔ انھیں سب سے بڑی پارٹی کو حکومت سازی کی دعوت دینی چاہیے یا کہ نتیجہ آنے کے بعد تشکیل پانے والے نئے اتحاد کو بلانا چاہیے؟

اگر گورنر بی جے پی کو حکومت سازی کی دعوت دے بھی دیتے ہیں تو اس کے لیے اپنی اکثریت ثابت کرنے کے لیے مزید آٹھ ارکان کی حمایت حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔

یہ بھی پڑھیے

مودی دوبارہ وزیراعظم بنیں گے؟

‘ہم ہندو نہیں، ہمارا مذہب الگ ہے’

ایسے میں بی جے پی دو آزاد امیدواروں کے ساتھ ساتھ کانگریس اور جنتا دل کے نو منتخب ارکان کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرے گی۔ دونوں جماعتیں اسمبلی میں اکثریت کی ووٹنگ ہونے تک اپنے اپنے ارکان کو ریاست کے اندر یا ریاست سے باہر کسی نامعلوم مقام پر کسی ریزورٹ یا ہوٹل میں ٹھہرانے پر غور کر رہی ہیں تاکہ بی جے پی ان سے رابطہ نہ قائم کر سکے۔

انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے ہیں ان سے ایک بات واضح ہے کہ ووٹروں نے کانگریس کو مسترد کر دیا ہے۔ بی جے پی کو بھلے ہی اکثریت نہ ملی ہو لیکن عوام نے اقتدار کے لیے اسے چنا ہے۔ کانگریس پر موقع پرستی کا الزام لگ رہا ہے کہ اس نے بی جے پی کو اقتدار سے باہر رکھنے کے لیے اپنے حریف سے ہاتھ ملا لیا۔

لیکن سیاست اخلاقیات کا نہیں تعداد کا کھیل ہے۔ اس سے پہلے بی جے پی گوا اور منی پور میں کانگریس کے ساتھ یہی کر چکی ہے۔ حکومت سازی کے لیے بنگلور میں سرگرمیاں انتہائی تیز ہو گئی ہیں۔ حکومت کس کی بنے گی یہ بتانا بہت مشکل ہے۔

وسیع تر تناظر میں اگر دیکھا جائے تو یہ کانگریس کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ ان ریاستوں میں جہاں علاقائی جماعتیں مضبوط ہیں وہاں وہ بی جے پی کو تنہا ہرانے کی سکت نہیں رکھتی۔ اگر اس نے انتخابات سے پہلے جنتا دل سے اتحاد کر لیا ہوتا تو وہ ریاست میں دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہوتی۔

بی جے پی کا نقصان زیادہ بڑا ہے۔ اگر اس کی حکومت نا بن پائی تو وہ جیت کر بھی ہار گئی۔ اگر کانگریس اور جنتا دل نے مل کر حکومت بنا لی تو یہ بی جے پی کے لیے ایک برس میں آنے والے انتخابات کے لیے بھی بہت نقصان دہ ثابت ہوگا۔

انتخابی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر تازہ نتائج کی روش برقرار رہی تو دونوں جماعتیں متحد ہو کر ریاست کی 28 میں سے 20 پارلیمانی سیٹوں پر کامیابی حاصل کر سکتی ہیں اور بی جے پی محض چھہ سات سیٹوں پر سمٹ سکتی ہے۔

کرناٹک کی سیاسی بساط پر کانگریس نے اپنی سیاسی چال سے پہلی بار بی جے پی کو مات دی ہے۔ لیکن بی جے پی اس طرح کے سیاسی کھیل کی ماہر ہے۔ بنگلور آئندہ کئی روز تک زبردست سیاسی ڈرامے کا مرکز بنا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp