کیا صدرٹرمپ نے خیر و شر کی آخری جنگ کی بنیادیں رکھ دی ہیں؟


امریکہ کے سیاسی حلقے میں ٹرمپ جیسی غیر سیاسی شخصیت کی آمد اور بطور صدر انتخاب نے جہاں امریکی عوام کے نام نہاد سیاسی و سفارتی شعور کی قلعی کھول دی وہیں اس تاجر کی بطور صدر حکمت عملی سے دنیا کا پہلے سے ہی بگڑا ہوا عالمی نظام بدترین استعماریت کا روپ دھار چکا ہے۔ امریکہ و یورپ سمیت دیگر عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان سال 2015 میں سالہاسال کی سفارتی مشقت کے بعد طے پایا جانے والا جوہری معاہدہ ایک ایسی دستاویز تھا جس کے کارآمد اور موثر ہونے کی تائید خود امریکی وزیر خارجہ تین مہینے پہلے تک کر چکے ہیں۔ تاہم امریکی صدر نے اس معاہدے سے انحراف کرکے نہ صرف عالمی طاقتوں کی سفارتی کامیابی کو پیروں تلے روندا ہے بلکہ مشرق وسطیٰ میں نئی طرز کی تشویش کی آگ بھڑکا دی ہے۔

طاقت اور شہرت کے لئے غیر معمولی طور پر خواہشمند صدر ٹرمپ کے تمام سیاسی اور سفارتی فیصلے نہ صرف دوررس نتائج کے حامل ہیں بلکہ ان کی ایک علامتی حیثیت ہے۔ وہ ہر ایسا کام کرگزرنا چاہتے ہیں کہ جس سے یہ ثابت ہو کہ وہ امریکی تاریخ کے قابل ترین اور دوراندیش رہنما ہیں۔ ان کی مثال حد درجہ سطح کے گھمنڈی آدمی کی ہے جو اپنی شہرت کے لئے کسی کی حاصل شدہ کامیابی پر پانی پھیر دیں یا کسی کامیابی کے حصول کے لئے کسی بھی حد سے گزر جائیں۔ وہ ایران کی جوہری ڈیل سے اس لئے منحرف ہوئے کہ وہ صدر اوبامہ کے دور کی کامیاب ترین سفارتکاری تھی ۔ وہ شمالی کوریا کے ساتھ کسی طرح کے جوہری معاہدے کو طے کرکے اپنے آپ کو منوانا چاہتے ہیں۔ صدر اوبامہ کی سب سے بڑی سفارتی ناکامی مشرق وسطیٰ کے لئے کوئی امن منصوبہ نہ دے پانا تھا صدر ٹرمپ فلسطینی تنازعے کو محض طاقت کے زور پر دفن کردینا چاہتے ہیں۔

ان کی یہ حکمت عملی عالمی سطح پر ایک ایسا ماحول ترتیب دے رہی ہے جہاں طاقت اور اختیار کے بل بوتے پر اتحاد تشکیل پارہے ہیں اور سفارتکاری وسمجھوتوں کی بجائے دھونس اور دھمکی اپنے مفادات کے حصول کے لئے بطور ذرائع مستعمل ہورہے ہیں۔ صدر ٹرمپ فلسطینی انتظامیہ سے یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ یا تو اسرائیل فلسطین تنازعے کے لئے ٹرمپ فارمولہ قبول کریں وگرنہ وہ فلسطینی انتظامیہ کی سالانہ امداد روک دیں گے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کو بھی امریکہ مخالف قرارداد لانے کی پاداش میں امداد روکنے کی دھمکی دی ہے۔ انہوں نے اپنی مستقل مندوب کے ذریعے ایسے ممالک کی فہرست بھی تیار کی ہے جو یو این جنرل اسمبلی میں امریکہ مخالف قرارداد کی حمایت کرتے ہیں تاکہ ایسے ممالک کے خلاف تادیبی کارروائی کی جاسکے۔

طاقت کے بے محالہ استعمال سے یہ اندیشہ لاحق ہے کہ فلسطینی جو عرصہ ستر سال سے اپنی ہی سرزمین پر اپنی ریاست سے محروم قوم ہیں اس عالمی سطح پر تسلیم شدہ حق سے بھی محروم نہ ہوجائیں جو انہیں کاغذی ہی سہی یہ تسلی تو دیتا ہے کہ ایک روز وہ اپنے خطے میں اپنی آزاد اور خودمختار ریاست کے مالک ہوں گے۔

کل کی یہ تقریب جس میں امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کیا گیا ایک سیاسی تقریب کی بجائے مذہبی تقریب اس لئے زیادہ لگ رہی تھی کہ اس کے تمام مقررین نے عہد نامہ عتیق اور عہد نامہ جدید سے ایسے اقتباسات پڑھے جس میں ارض فلسطین کو صیہونی یہودیوں کا تاریخی علاقہ کہا گیا تھا۔ تقریب کے مہمان خصوصی جو کہ ایک مسیحی عالم تھے اور اس تقریب کے لئے امریکہ سے بطور خاص تشریف لائے تھے انہوں نے حضرت ذکریا ؑ اور حضرت ابراہیم ؑ کے حوالے دیے اور باقاعدہ نام لے کر مسلم مزاحمت اور ایرانی ریاست کی اسرائیل مخالف پالیسی کو طنز کا نشانہ بنایا۔

ظاہر ہے کہ یہ ایک سیاسی تنازعہ تھا جس کا بیانیہ اب اپنی حیثیت میں موجودہ امریکہ انتظامیہ کی حکمت عملی کے سبب الہامی مذاہب کے مابین جنگی کیفیت میں تبدیل ہوچکا ہے۔

بین الاقوامی تعلقات میں ماہرین کا قول ہے کہ وقت ازحد فیصلہ کن مظہر ہے۔ ہفتہ بھر پہلے لبنان میں ہوئے انتخابات میں ایران کی حمایت یافتہ اسرائیل مخالف مذہبی و عسکری تنظیم حزب اللہ کے سیاسی اتحاد نے فیصلہ کن کامیابی حاصل کی ہے۔ شام کی خانہ جنگی کا خاتمہ صدر بشار الاسد کی کامیابی کی صورت اب نوشتہ دیوار ہے جن کی حیثیت حالیہ خانہ جنگی کے بعد ایرانی کٹھ پتلی ہوکر رہ گئی ہے۔ جس روز امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل ہوا اسی روز عراق میں نام نہاد دولت اسلامیہ کے ایرانی ملیشیاؤں کی مدد سے خاتمے کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں امریکہ کے خلاف نجف اور کربلا میں لڑنے والے والی مشہور المہدی آرمی کے رہنماء اور معروف مذہبی عالم مقتدیٰ الصدر کے سیاسی اتحاد کی کامیابی نے ایران کے لئے بہت سی سفارتی و تزویزاتی آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔

اگلے چند مہینوں بعد مشرق وسطیٰ میں عملاً یہ صورتحال جنم لینے والی ہے کہ اگر کوئی ایرانی شہری تہران سے بغداد اور بغداد سے دمشق اور دمشق سے بیروت جانا چاہے تو اسے شاید ہی کسی رکاوٹ کا اندیشہ ہوگا۔

نہیں معلوم کہ ایک تسلسل سے قائم ایران کے زیر اثر یہ عرب ممالک ایران کے پرانے حریف سعودی عرب سے کیا معاملہ کریں گے تاہم یہ طے ہے کہ مذہبی بنیادوں پر تربیت یافتہ ایران کی پاسدار ان انقلاب فوج کے القدس بریگیڈ کہ جس کی قیادت میں حزب اللہ اور حماس دونوں ہی اسرائیل کی نابودی چاہتے ہیں کے لئے مذہبی بیانئے پر ہونے والی بہت حد تک ممکنہ ایران اسرائیل جنگ کہ جس کا میدان شام ہوگا بہت قریب آچکی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ اگر عہد نامہ عتیق میں ایسی کسی جنگ کا پیش گوئی موجود ہے کہ جو شام کی حدود میں اسرائیلیوں اور ان کے مخالفین کے درمیان ہوگی تو مسلمانوں کی کتابیں بھی ایسی ہی پیشگوئیوں سے بھری ہوئی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اسرائیلی روایات میں فتح اسرائیل کی ہوگی جبکہ مسلم روایات میں فتح مسلمانوں کی ہوگی۔
مذہبی بیانئے کی آمیزش نے اس سیاسی تنازعے کو اس قدر خطرناک نہج پہ لا کھڑا کیا ہے کہ اب الہامیت نہیں بلکہ انسانیت خطرے میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).