مابعداز حقیقت کا دور


آپ سے کیا پردہ۔ گزرے پیر کی صبح یہ کالم لکھنے بیٹھا تو جوموضوعات ذہن میں آئے وہ ’’حساس‘‘ نوعیت کے تھے۔ ان کا تذکرہ چھیڑ دیتا تو روانی میں چند فقرے سرزد ہوجاتے۔ رزق کی محتاج جبلت نے لہذا گریزسے کام لیا۔ قلم چل نکلا تو کرنل جوزف کا ذکر بھی ہوگیا۔ اسلام آباد میں تعینات دفاعی اتاشی جس نے سرخ بتی کو تیزی سے کراس کرتے ہوئے ہمارے ایک نوجوان موٹرسائیکل سوار کو ہلاک کردیا تھا۔

کرنل کے خلاف پرچہ وغیرہ درج ہوا۔ ہلاک ہوئے نوجوان کے لواحقین نے عدالت سے بھی رجوع کرلیا۔ اس کارروائی کے ہوتے ہوئے بھی امریکہ نے اپنا ایک طیارہ اسے لینے کے لئے راولپنڈی بھیج دیا۔ ہمارے چند سرکاری افسران مگر ڈٹ گئے۔ NOCدینے سے انکار کردیا۔ امریکی طیارے کو پانچ گھنٹے انتظار کے بعد کرنل جوزف کے بغیر لوٹ جانا پڑا۔

امریکی طیارے کی مذکورہ واپسی نے مجھے اس خدشے میں مبتلا کردیا کہ ٹرمپ جیسے متعصب اور مغرور صدر کے ماتحت انتظامیہ اس واقعہ کو اپنی توہین گردانے گی۔ ردعمل ہوگا جو شاید دن بدن مخاصمانہ ہوتے پاک-امریکہ تعلقات میں مزید الجھنیں پیدا کرنے کا باعث ہوگا۔ منگل کی صبح میرا کالم چھپنے تک لیکن کرنل جوزف پاکستان سے رخصت ہوچکا تھا۔

سوشل میڈیا کے ذریعے میرے کالموں پر تبصرہ آرائی کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد نے کرنل جوزف کی روانگی کے بعد میری سادگی کا مذاق اڑایا۔ انہیں افسوس ہوا کہ مجھ ایسا کالم نگار جو خود کو بین الاقوامی امور کے بارے میں افلاطون ایسا مفکر شمار کرتا ہے کیوں یہ بنیادی حقیقت سمجھ نہیں پایا کہ پاکستانی اشرافیہ میں امریکی خواہشات کو ٹھکرانے کی سکت ہی نہیں۔ کرنل جوزف کو بالآخر بخیروعافیت اپنے وطن لوٹ ہی جانا تھا۔میں بے بنیاد خدشات میں مبتلا رہا۔

لوگ ایک حد میں رہتے ہوئے میری سادگی اور حماقت کا مذاق اڑائیں تو میں برا نہیں مانتا۔ اکثر گالیاں کھاکے بھی بدمزہ نہیں ہوتا۔ سوشل میڈیا کا ایک مخصوص مزاج ہے۔ آپ کو اس مزاج کے ساتھ گزارہ کرنا ہوتا ہے۔ خاص کر اس صورت میں جب اسی میڈیا کے ذریعے ناقابل برداشت محسوس ہوتے پیغامات کو بلاک یا میوٹ کرنے کی سہولت بھی موجود ہے۔

صحافی مگر میں پرانی وضع کا ہوں۔ بزرگوں نے سکھایا تھا کہ صحافی کا فریضہ محض خبر دینا ہی نہیں ہے۔ کوئی خبر جب Developing Storyکی صورت اختیار کر لے تو صحافی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس معاملے سے جڑے تمام پہلوئوں کو بھی عام قاری کے سامنے رکھنے کی کوشش کرے۔

سفارت کاری کا ذکر ہو تو جنیوا کنونشن کا حوالہ ضروری ہوجاتا ہے۔ اس کنونشن کے تحت کسی غیر ملک میں تعینات سفارتی عملے کو اس ملک کے تھانہ کچہری سے بچانے کے لئے چند اصول طے کردئیے گئے ہیں۔جنیوا کنونشن کے تحت ملی مراعات میں سے چند کو مزید یقینی بنانے کے لئے ایک وی آنا کنونشن بھی ہوا۔ اس کی اپنائی دستاویز میں صراحتاََ لکھ دیا گیا ہے کہ جنیوا کنونشن کے ضوابط کے تحت کسی غیر ملک میں تعینات ہوئے سفارت کار کو کسی بھی صورت ،جی ہاں ’’کسی بھی صورت‘‘ گرفتاریا کچھ دیر کو بھی حراست میں نہیں لیا جائے گا۔ پاکستان نے اس کنونشن پر باقاعدہ دستخط کررکھے ہیں۔ دنیا بھر کے بے تحاشہ ممالک میں ہمارے سفارت کار بھی تعینات ہیں۔ وہ جنیوا اور وی آنا میں ہوئے معاہدات سے بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں۔

مجھے کچھ ایسے واقعات کا بھی بخوبی علم ہے جب ہمارے چند بسمارک کے ہمہ پلہ یا شاید اس سے بھی بڑے بقراط تصور ہوتے اعلیٰ سطحی سفارت کار غیر ممالک میں کچھ ایسی حرکتوں کے مرتکب ہوئے جو وہاں کے قانون کے مطابق سنگین جرائم تصور کئے جاتے تھے۔ جنرل مشرف کے دور میں ان کے ایک بہت ہی چہیتے سفارت کار کے ساتھ بھی نیویارک میں ایک کافی شرمناک واقعہ ہوا تھا۔ قانون کی گرفت سے لیکن وہ مذکورہ بالا معاہدات کی بدولت بچے رہے۔

کرنل جوزف کی پاکستان سے رخصتی کے بعد پرانی وضع کا صحافی ہوتے ہوئے میں نے اپنے قارئین کی معاونت کے لئے مذکورہ بالا معاہدات کا ذکر کیا۔ پیشہ ورانہ زبان میں ہم اسے Backgroundفراہم کرنا پکارتے ہیں۔ مقصد اس کا کسی واقعے کو اس سے جڑے تناظر میں رکھ کر بیان کرنا ہوتا ہے تاکہ ذہن صاف رہیں۔ سازشی کہانیوں کا شکار نہ ہوں۔

گزشتہ چند برسوں سے مگر انسانی رویوں کا مسلسل تحقیق کے ذریعے جائزہ لینے والے ماہرین اصرار کررہے ہیں کہ ہم Post-Truthدور میں جی رہے ہیں۔اس لفظ کو آج سے دو سال قبل آکسفورڈ ڈکشنری میں بھی شامل کردیا گیا ہے۔ اُردو زبان میں شاید اسے مابعدازحق /سچ یا حقیقت کہا جاسکتا ہے۔

سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ جدید انسانی رویوں کے بارے میں تحقیق کرنے والے یہ بتارہے ہیں اب معروضی حقائق کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔اندھی نفرت وعقید ت میں تقسیم ہوئے معاشروں میں ’’سچ‘‘ صرف وہ ہے جو لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں پہلے سے موجود تعصبات وجذبات کا اثبات کرے۔

مثال کے طورپر ٹرمپ اور اس کے حامیوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران مسلسل یہ الزام لگایا کہ امریکہ میں مقیم غیر ملکی وہاں سنگین جرائم میں اضافے کا باعث ہیں۔ صحافیوں کے ایک گروہ نے اس الزام کا جائزہ لینے کے لئے نیویارک میں گزشتہ 20برس میں ہوئے جرائم کا Dataجمع کیا۔ ٹھوس حقائق کے ذریعے ثابت کیا کہ گزشتہ پانچ برسوںمیں نیویارک ایسے شہر میں سنگین تو کیا معمولی جرائم میں بھی نمایاں کمی کا رحجان نظر آرہا ہے۔ ٹھوس اعدادوشمار کے ذریعے بیان کیا یہ سچ مگر قبول نہ ہوا۔ ٹرمپ کے حامی اپنے تعصبات ہی کے اسیر رہے۔

ہمارے ہاں سیاپا فروشوں کی جانب سے میڈیا پلیٹ فارمز پر مسلسل ماتم کنائی کی بدولت یہ تصور لوگوں کے دل ودماغ میں بیٹھ چکا ہے کہ امریکی سفارت کار اسلام آباد میں تعیناتی کے دوران جو چاہے کر گزرتے ہیں اور ہماری ’’کمزور اور بے بس حکومت‘‘ انہیں لگام دینے کے قابل نہیں۔

امریکی حکام کی رعونت مجھے بھی بہت اشتعال دلاتی ہے۔ اس الزام کو لیکن میں تسلیم کرنے کو ہرگز تیار نہیں کہ امریکہ پاکستان پر ہر معاملے میں دھونس جماسکتا ہے۔ کالم میں تفصیلات بیان نہیں ہوسکتیں۔ آسانی کے لئے محض پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو مدنظررکھیں۔ امریکہ نے اسے روکنے کے لئے پاکستان کو 90کی دہائی میں دنیا کا Most Sanctioned Countryبنادیا تھا۔ اس کے باوجود مئی 1998میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا ہم نے چاغی میں بھرپور جواب دیا۔ گزشتہ حکومت کے دور میں آصف زرداری اور جنرل کیانی نے یک سو ہوکر محض چند روز کے لئے نہیں بلکہ پورے سات ماہ تک سلالہ واقعے کے بعد امریکی افواج کے لئے پاکستانی راستوں سے جانے والی رسد روکے رکھی۔

یہ دو واقعات بتانے کے باوجود بھی لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ محض چند قاری ہی میرے اس دعوے سے اتفاق کریں گے کہ وی آنا کنونشن کے تحت عائد مجبوریوں کی وجہ سے کرنل جوزف کا اپنے وطن لوٹ جانا ضروری تھا۔فرض کیا وہ گھاناجیسے کمزور ملک کا دفاعی اتاشی بھی ہوتا اور اس سے ویسا ہی حادثاتی قتل ہوجاتا تو اپنے خلاف کسی بھی قانونی کارروائی سے ہر صورت محفوظ رہتا۔’’مابعدازحقیقت ‘‘ کے دور میں لیکن میری اس بات کو سمجھنے کے لئے کوئی تیار نہیں ہوگا۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).