ہجرت اور گھونسلے کے درمیان عمر گزارنے والی ماں


اماں کے ہاتھ میں سلائیاں ہوتیں، مختلف رنگوں کے اون کے گولوں کے ساتھ،  جن کے نرم دھاگے وہ مہارت سےاُن سلائیوں کی مدد سے ایک دوسرے سےجوڑ دیتیں، اُلجھی ہوئی ڈوریں سیدھی کر دیتیں ۔ مختلف رنگ دھاگے ایک دوسرے سے ریشے، طوالت اور ملائمت میں فرق رکھتے -مگر وہ ایک سلائی سے ایک دھاگے کو اُٹھاتی٘ں، اُس کو اہمیت دیتیں، دوسری سلائی سے دوسرے کو قریب لاتیں، دونوں کو بغلگیر کرتیں اور ٹانکا لگا کر ہمیشہ کے لیے جوڑدیتیں۔ اور پھر جب وہ سویٹر تیار ہوتا تو اُن کی مہارت نظر آرہی ہوتی، کہیں رنگوں کا مقابلی امتزاج، کہیں رنگوں کی یک رنگی، کہیں بازووں پر خانہ دار اُبھرے ڈیزائن، کہیں ا یک چلتی ہمواریت، کبھی گول گلا اور کبھی وی ڈیزائن، کبھی سامنے سے بند، کبھی سامنے سے بٹن دار۔ اور جب وہ سویٹر پہنتا تو اُن کی خوشبو، محبت، گرمائش سب سینے کے ساتھ ہوتی۔

اُنہیں پتہ تھا کسے کیا پسند ہے، انہیں پوچھنا نہ پڑتا تھا۔ اُن کے پاس اپنا کوئی آلہ تھا،  نہ نظر آنے والا، بہت حساس، ہمارے تمام احساسات خیالات کو ماپ لینے والا، ہماری موجودگی یا غیر موجودگی سے بالاتر،صحیح  پیمائش کرنے والا۔ اگر دفتر سے کسی بنا پر میں پریشان ہو کر گھر آتا تو پتہ نہیں کیسے اُن کو پہلے سے ہی پتہ ہوتا۔ ہماری خوشیاں، ہمارے غم، ہماری کامیابیاں، ہماری ناکامیاں، ہماری ہنسی، ہمارے آنسو سب اُن کی ذات کا حصہ تھے۔ میں اپنی پریشانیاں خود اُٹھانا چاہتا تھا، اُن کو بتائے بغیر مگر وہ تو پوچھے بنا آپ کا وزن اُٹھا لینے والا خدمتگار تھیں اور مجھے یہ بات بحثیت بیٹا تکلیف دیتی تھی، مگر اماںوہ ایسے ہی تھیں، وہ تمام عمر خدمتی رہیں ۔ماں جی نے تمام عمر خدمت کی،اپنے بچوں کی،اپنے خاوند کی، رشتہ داروں کی، محلہ داروں کی، واقف کاروں کی،غیروں کی، اپنوں کی، پرائیوں کی-

وہ کیا تھیں۔ کیا میں، اُنکا بڑا بیٹا، اُنہیں جانتا ہے ۔شاید ہاں، شاید نہیں۔

وہ دستکار تھیں، زندگی کی اُلجھی ڈور یں کمال ہنر مندی سے سلجھا دینی والی۔

وہ ایک جنگجو تھیں، زندگی کی آ نکھوں میں آ نکھیں ڈال کر ایک معرکے سے نکل کر اگلے معرکے میں لڑنے والی۔

وہ ایک دیہاتی عورت تھیں، سادہ، محنتی، محبت آمیز ، خود دار-

 وہ ایک خدمتگار تھیں، کندھے پر کپڑا ڈالے، جو ویسے کہیں نظر نہ آئے مگر ضرورت پڑتے ہی جھٹ پٹ کام کرکے غائب ہوجائے۔ بنا کچھ چاہے، بنا صلہ مانگے۔

کیا میں، اُن کا بڑا بیٹا اُنہیں جانتا ہوں۔ شاید ہاں، شاید نہیں۔

یقینا نہیں، ماں کو کہاں اولاد جان سکتی ہے۔

اماں نے اپنے شہید بیٹے لیفٹیننٹ ضرار کے نام پر ہسپتال بنانا شروٰع کیا ۔ یہ عجب بات تھی، بیٹے ماوں کے نام پر  یادگاریں بناتے ہیں یہ تو اُلٹ معاملہ تھا ۔ مگر اماں کہاں عام عورت تھیں وہ خاص عورت تھیں۔ اور جب اماں نے یہ کام شروع کیا تو  اُن کی عمر ساٹھ سال تھی۔ وہ دو دن قبل ہی سرکاری نوکری سے ریٹائر ہوئی تھیں۔ میرے خیال میں تو  اُن کی عمر شاید دو تین سال زیادہ ہی ہو گی۔ پاکستان بننے سے پہلے آپ گورداسپور کے ایک گاوں میں پیدا ہوئِیں۔ اُس وقت کون پیدائش کی تاریخ کا خیال رکھتا تھا اور ماں جی تو بہت عرصہ بعد سکول داخل ہوئیں۔ خیال ہے کہ اُس وقت استاد نے جو دل چاہا تاریخ ڈال دی ہوگی۔

ماں جی پا کستان بننے سے قبل گورداسپور کے ایک گاوں میں پیدا ہویئں- آپ کے ماں باپ دونوں ان پڑھ تھے۔ شاید تین چار سال کی عمر کی ہوں گی کہ اُن پر پہلا دکھ آیا ۔ شام کو جلتے دیے کے ساتھ کھیل رہی تھیں کہ دوپٹے اور کپڑوں کو آگ لگ گئی۔ گاوں میں کوئی نیم حکیم تھا جس نے علاج خراب کر دیا ۔ اماں نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ حکیم نے چونے کا لیپ کر دیا تھا۔ چونے کے پانی سے لوگ جلے کا دیسی علاج کرتے ہیں، مگر حکیم شاید جانتا نہ تھا۔ نتیجتاً اماں کے چہرے پر بچپن سے ہی جلنے کے مستقل نشان پڑ گئے تھے اور اس سے بڑھ کے اُن کے دونوں ہاتھوں کی ایک ایک انگلی ضائع ہوگئی۔ بچپن میں جب میں نے ہوش سنبھالا تو اماں کے ہاتھوں کو دیکھتا اور اپنے ہاتھوں کو دیکھتا تو سمجھ نہ آتی،بہت عرصہ لگا ایک ننھے ذہن کو اس معمے کو سمجھنے میں، اور پھر اِس معمے کی جگہ ایک خاموش درد نے لے لی ۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

عاطف ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں سکول آف کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ وئیر انجینرنگ میں پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ نے اپنی یونیورسٹی کا400 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جبکہ اپنے شوق سے کے-ٹو پہاڑ کے بیس کیمپ تک ٹریکنگ کر چکے ہیں۔

atif-mansoor has 73 posts and counting.See all posts by atif-mansoor