کیا راوی کی بحالی لوگوں کی بربادی کے بغیر ممکن نہیں؟


دریائے راوی کی تاریخ بھی شاید اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ لاہور کی۔ ماضی میں لاہور کے باغات اور فصلوں کو سیراب کرنے والا راوی لاہور باسیوں کے لیے آب حیات تھا۔ راوی کی روانی نے اس خطے سمیت دنیا بھر کے لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا تھا۔ راوی کنارے آباد لاہور ہر دور میں اپنی مثال آپ رہا ہے اور اسے باقاعدہ عروج مغل دور حکومت میں حاصل رہا، راوی کے پانی سے سیراب ہوتے شہر میں کتنے ہی باغات لگائے گئے۔ اورنگ زیب عالمگیر نے راوی کے سرہانے عالمگیری مسجد تعمیر کی، شاہجہاں نے شالامار باغ اور شاہی قلعہ تعمیر کروایا، کامران نے راوی کے بیچوں بیچ بارہ دری بنائی۔

شیخوپورہ میں ہرن مینار تعمیر ہوا تو اس کے تالاب کو سیراب کرنے کے لیے بھی راوی نے ہی پانی مہیا کیا۔ بادشاہ جہانگیر نے اپنی آخری آرام گاہ کے لئے راوی کا پہلو چنا تو ملکہ نور جہاں اور آصف جاہ نے بھی راوی کنارے دفن ہونا پسند کیا۔ پورا شہر لاہور راوی کنارے اپنی فصیلوں میں بند ہو کر کبھی صاف و شفاف پانیوں سے محروم نہیں رہا۔

اس دریا کے پانی سے لوگ اپنی فصلیں اور باغات سیراب کرتے رہے۔ یہ پانی ان کے لئے زندگی کا پیغام تھا۔ لیکن کسے خبر تھی کہ صرف ایک سیاسی فیصلہ نہ صرف راوی بلکہ اس کے کناروں پر آباد لوگوں سے بھی زندگی چھین لے گا۔ 1960 ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم کے لیے ”سندھ طاس معاہدہ“ طے پایا۔ معاہدے کے تحت بھارت کو پنجاب میں بہنے والے تین مشرقی دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج کا زیادہ پانی ملے گا۔ یعنی اس کا ان دریاؤں پر کنٹرول زیادہ ہو گا۔ جب کہ جموں و کشمیر سے نکلنے والے مغربی دریاؤں چناب، جہلم اور سندھ کا زیادہ پانی پاکستان کو استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔ تاہم بھارت کی جانب سے دریاوں کے رخ موڑے جانے اور ڈیمز بنانے کے باعث ستلج، بیاس خشک ہو گئے۔ اب دریائے راوی بھی آہستہ آہستہ دم توڑ رہا ہے۔

راوی کی لہروں کی روانی کے حوالے سے سینکڑوں گیت لکھے گئے ہیں۔ اس کے کنارے بنی بارہ دریاں اور باغات دور دور سے سیاحوں کو کھینچ کر اس تک لاتے رہے ہیں۔ ماضی میں لاہور کا باغوں کا شہر مانا جاتا تھا۔ آج باغ تو کہیں نظر نہیں آتے، البتہ جا بجا بکھرے کوڑے کے ڈھیر اس کے حسن کو ماند کرتے ضرور دکھائی دیتے ہیں۔ پنجابی کے لوک گیتوں میں تو آج بھی ”راوی وگدی) رواں (“ ہے لیکن حقیقت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ راوی کی کہانی ختم ہو رہی ہے۔

کسی زمانے میں لاہور کے اسی دریائے راوی پر سائبرین مہمان پرندے آیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ راوی میں 40 سے زائد آبی جاندار پائے جاتے تھے۔ لیکن افسوس اب نہ تو راوی رہا، نہ باغات اور نہ آبی حیات، مہمان پرندے تو نجانے کب کے رخصت ہوچکے۔ البتہ راوی کی فضاوں میں چیل اور کوے منڈلاتے دکھائی دیتے ہیں جو راوی کنارے پھینکے جانے والے گوشت پر جھپٹتے ہیں۔ راوی کی حیثیت اب ایک مردہ دریا سے زیادہ کچھ نہیں۔ اگرچہ پیاسی راوی کی پیاس دور کرنے اور اس کو زندہ رکھنے کے لیے اپر چناب نہر سے اس کا پیٹ بھرنے کی کوشش تو کی جاتی ہے تاہم دریائے راوی میں بہنے والا فیکٹریوں کا زہریلا فضلہ اس پانی کو بھی زہر میں بدل کر جہاں جہاں فصلوں کو سیراب کرتا ہے انہیں بھی زہر آلود کرتا جاتا ہے۔ آلودہ پانی سے سیراب ہونے والی فصلیں بھی انسانوں میں موت ہی بانٹ رہی ہیں۔

سندھ طاس معاہدے کی آڑ میں بھارت نے راوی کا پانی بیاس لنک کینال کے ذریعے دریائے بیاس کے حوالے کر دیا۔ آج کل راوی کی گزرگاہ گندا نالا بنا ہوا ہے۔ لاہور شہر کے گرد محمود بوٹی بند سے لے کر مانگا منڈی تک راوی میں بدبو اور تعفن کا راج ہے۔ فیکٹریوں کے زہریلے پانی اور شہر کے گندے نالوں نے راوی کو گٹر بنا کے رکھ دیا ہے۔

آج کل دوبارہ راوی خبروں میں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے مردہ راوی میں جان ڈالنے اور اسے آباد کرنے کے ایک منصوبے کا اعلان تو کر دیا ہے۔ لیکن کیا واقعی وہ اس مردہ راوی کو زندگی بخشنا چاہتے ہیں یا راوی کی بحالی کی آڑ میں کسی اور کو آباد کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت کے اعلان کردہ پچاس ہزار ارب روپے سے زائد سرمایہ کاری سے راوی ریور فرنٹ سٹی کے تحت دریائے راوی کے کناروں پر 7 واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگا کر سیوریج کا پانی صاف کر کے راوی کو سیراب کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

راوی کے کنارے آباد لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ کرنے کے لیے اس کے کناروں پر دیواریں تعمیر کرنے اور دریا میں جھیل بنانے کا منصوبہ ہے لیکن شاید حکومت کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔ ریور فرنٹ منصوبے پر عملدرآمد کرنے سے پہلے حکومت نے راوی کنارے آباد 5 تحصیلوں میں لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کے تحت سیکشن 4 جاری کر دیا ہے جس پر علاقہ مکینوں کو شدید تحفظات ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ راوی کو زندہ کرنے کے لیے اس میں جھیل بنائی جائے، بیراج بنائے جائیں تاکہ لاہور شہر میں تیزی سے گرتی زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو۔ اس کے کناروں پر دیواریں بنائی جائیں، تاکہ اردگرد کی آبادیاں دریائی کٹاو سے محفوظ رہ سکیں۔ تاہم اس منصوبے کی آڑ میں لوگوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنے کی سازش نہ کی جائے۔

پڑوسی ملک بھارت نے بھی ماضی قریب میں ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں اس جیسا ایک پراجیکٹ دریائے سبرامتی پر مکمل کیا۔ منصوبے کے دوران بھارتی حکومت نے نہ تو آبادی کو بے گھر کیا، نہ الگ سے زمین خریدی اور نہ بیرونی سرمایہ کاری حاصل کی۔ بھارتی حکومت نے 7 سال کی قلیل مدت میں 11 کلو میٹر طویل دریا کے کناروں کو خوبصورت پارکس، واکنگ ٹریکس، کمیونٹی سنٹرز، ریور فرنٹ ہاؤس اور بہترین سیر گاہ بنا دیا۔ اگر اسی ماڈل پر عمل کیا جائے تو راوی کی رونقیں بھی بحال ہوں گی، اس کے کناروں پر زندگی کی خوشیاں بھی لوٹ آئیں گی اور حکومت کو زیادہ فنڈز کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).