سوال پوچھنا کیوں ضروری ہے؟


چینی کہانی ہے ’’جو شخص سوال پوچھتا ہے محض پانچ منٹ کیلئے ہی بے وقوف گردانا جاتا ہے لیکن جو بالکل سوال ہی نہیں کرتا وہ عمر بھر کیلئے بے وقوف رہتا ہے۔‘‘ گویا زندہ ذہنوں میں کرید اور جستجو کا عمل شعور کے ارتقا کے سفر پر مائل رکھتا ہے۔ سوال پوچھنے والوں میں دوسروں کی بات سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ وہ اپنے ذہن کے دریچے نئے افکار کی آمدو رفت کیلئے کھلا رکھتے ہیں۔ خود آگہی کے ساتھ ان میں دوسروں کے ساتھ یکانگت کا پل تعمیر کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ بااعتماد شخصیت ہونے کی وجہ سے وہ اپنے خوف اور مفروضات کی دیواروں کو توڑنے اور غلط نظام کے نافذ کرنے والوں کو چیلنج کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اس طرح وہ سماجی تبدیلی کے عمل میں معاونت کرتے ہیں۔ پس اگر کسی معاشرے میں خاطر خواجہ تبدیلی اور ترقی ہو رہی ہے تو سمجھ جایئے کہ یہ ایسے ہی پرتجسس ذہنوں کی ’’دین‘‘ ہے۔ عظیم سائنسدان البرٹ آئن اسٹائن کا کہنا ہے کہ ’’میرے اندر کوئی خاص صلاحیت نہیں۔ بس میں انتہائی پرتجسس ہوں۔‘‘

اب اس کے برعکس ان افراد کو دیکھئے جو ’’کیوں پوچھنے سے خائف ہیں یا کتراتے ہیں۔ یہ اذہان وہ ہیں جو اپنی بوسیدہ روایات کی عمارت میں بند محض اپنی ہی سرگوشی کو سنتے اور باہر کی آوازوں پہ پہرہ لگا دیتے ہیں۔ ان کا یہ عمل دراصل روح کی خوابیدگی ٗ اندھیرے اور گھٹن کے مترادف ہے۔ غور و خوض ٗ فکر و تجسس ٗ سوالات کا پوچھنا اور اس کی تلاش کا عمل دراصل خوابوں اور تخلیق کا امین اور سماجی و سائنسی ترقی کا اہم جزو ہے جبکہ اس کا فقدان فکری بانجھ پن کی دلیل۔ ایسے افراد اکثر اپنے اندر کے خالی پن کو باہر کی شوشا سے بھرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں لیکن اس طرح کھوکھلا پن دور نہیں ہوتا۔ ان جیسے افراد کیلئے ہی حضرت علی کا قول ہے کہ

’’دنیا والے ایسے سواروں کی مانند ہیں جو سو رہے ہیں اور سفر جاری ہے۔‘‘

تاہم ترقی یافتہ معاشروں میں روح کی بالیدگی اور شعوری ارتقاء کا عمل تجسس اور چیلنج کا مرہون منت ہے جو انفرادی سطح سے شروع ہو کر اجتماعیت کا روپ دھار لیتا ہے۔ اس کے برعکس ترقی پذیر معاشروں پر اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ

آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی کی

اگر سوال کرنا فطری میلان ٹھہرا جو بچپنے سے ہی شروع ہو جاتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ لوگ سوال پوچھنے اور غلط فرسودہ روایات اور عقیدوں کو چیلنج کرنے سے گریز کرتے ہیں؟ اس کی چند ممکنہ وجوہات مندرجہ ذیل ہو سکتی ہے۔

-1 سوال پوچھنے والے کا یہ خوف کہ انہیں کند ذہن اور جاہل نہ سمجھا جائے۔ حالانکہ انہیں سمجھنا چاہئے کہ دنیا کے عظیم مفکروں کا وقت جواب دینے سے زیادہ سوالات میں صرف ہوا۔ عظیم مفکر و الٹیر کا کہنا ہے ’’انسان کو اس کے جوابات سے یا سوالات سے پرکھو۔‘‘

-2 کچھ افراد اپنی معلومات کو وسیع ٗ جامع اور حتمی سمجھتے ہیں لہٰذا مزید سوچنے اور پوچھنے کو گوارا نہیں کرتے وہ اپنے آپ کو یقینی اور کامیاب ثابت کرنے میں مصروف رہتے ہیں حالانکہ دیکھا جائے تو بے یقینی اور ناکامی کی اپنی وقعت ہے وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ اگر ایک طریقہ درست ثابت نہیں ہوا تو دوسرا کون سا فکر و عمل اپنانا چاہئے۔ اس طرح مختلف کسوٹی پر پرکھے جانے کے بعد ہی نئی دریافت کی نوید ملتی ہے۔

-3 کچھ افراد ناکامی کے خوف سے ذہنوں کو تالے لگا دیتے ہیں جو ان کی عدم تحفظ اور ان کی نظر میں اپنی کم وقعتی کی علامت ہے۔ دراصل ایک بظاہر لایعنی سوال بھی طاقت ، ذہانت اور اعتماد کی دلیل ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آئزک نیوٹن کا یہ سوال کہ ’’سیب درخت سے ٹوٹ کر زمین پر کیوں گرتا ہے۔‘‘ کشش ثقل کا پتہ نہ دیتا اور نہ ہی چارلس ڈارون کی تھیوری آف نیچرل سلیکشن نے جنم لیا ہوتا۔ اس دور کے عظیم سائنسدان اور نظریہ اضافت کے بانی البرٹ آئن اسٹائن کا کہنا ہے کہ

’’اگر بنی نوع انسان کو زندہ رہنا اور شعور کے اگلے قدم کی جانب بڑھنا ہے تو نئی سوچ ناگزیر ہے۔‘‘

-4 اکثر اوقات افراد اپنے فکری و جدان کے باوجود اظہار سے گریز کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے میں مخالفین اور مناظروں سے نپٹنے کی ہمت نہیں پاتے۔ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ ان کی سوچ بچار اور بے باک چیلنج عقائد اور روایات کی اس عمارت کو ڈھا دینے کے مترادف ہو گا کہ جس پر معاشرے کی اکثریت آنکھ بند کئے ٹیک لگائے بیٹھی ہے۔ وہ اپنی جان اور خاندان کے تحفظ میں زبان پر تالے لگا لیتے ہیں۔

سبھی کو جان پیاری تھی سبھی تھے لب بستہ

بس ایک فرازؔ تھا ظالم سے چپ رہا نہ گیا

(احمد فراز)

عظیم فلسفی اور مفکر سقراط نے معاشرے کو چیلنج کیا تو اس جرم کی پاداش زہر کا پیالہ تھی جو اس نے پینا منظور کیا کیونکہ اس کو اپنی سچائی کا یقین تھا۔ چارلس ڈارون کا انسانی ارتقاء کا نظریہ مذہبی معرکوں کا باعث بنا۔ یہی مخالفین، مناظرے اور تشدد کے خوف ہیں جو افراد کو سوال کرنے اور چیلنج کرنے سے باز رکھتے ہیں کیونکہ اکثریت کو خوف سے عاری اور آرام دہ زندگی پیاری ہوتی ہے۔

اب اگر ان تمام مندرجہ بالا وجوہات کو انسان کے شعوری ارتقاء میں حائل رکاوٹیں تسلیم کر بھی لی جائیں تو ہم اپنی آئندہ نسل کے سامنے کس طرح جواب دہ ہوں گے جو پچھلی نسل کی تساہل پسندی اور فکری و تخلیقی بانجھ پن پہ شاکی رہے گی۔

نئے سوال مدلل جواب چاہیں گے

ہمارے بچے نیا اب نصاب چاہیں گے

حساب مانگیں گے اک دن وہ لمحے لمحے کا

ہمارے عہد کا وہ احتساب چاہیں گے

(ڈاکٹر خالد سہیل)

لہٰذا ضروری ہے کہ فکر و تجسس کے عمل کو زندہ رکھا جائے کہ ایسے عمل میں مصروف قومیں بھی خواب دیکھتی اور ان کی تعبیریں تلاش کرتی ہیں۔ معاشرتی ناانصافی اور انتظامی امور کے ڈھانچے کو چیلنج کرنے کی ہمت رکھتی ہیں اور آنے والے کل کو آج کی فکر کی کھاد سے زرخیز کرتی ہیں کہ جس پر نئی نسل کی نمو ہو گی۔ ایک آزاد کھلی فضا اور روشن مستقبل کے ساتھ۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).