گھنٹی والی ڈاچی اور فریب کار بانسری


’’میرے باپ نے مجھے بتایا کہ میں کیا ہوں، کتنی حسین ہوں، کتنی دِل کش ہوں۔ اُس نے میری تربیت کی ہے‘‘۔

اُس کے باپ نے اُس کی ماں‌ کو، اُس کی کم سنی میں چھوڑ دیا تھا۔ ماں کی دوسری شادی کردی گئی۔ وہ ننھیال میں ماموں کے در پہ پلی۔ پھر یہ ہوا کہ ماں کا سایہ بھی سر پہ رہا؛ کیوں کہ سوتیلا باپ کمائی کے غرض سے مشرق وسطیٰ میں تھا، تو اُس کی ماں، بھائیوں کے یہاں رہی۔ اُسے یہی بتایا گیا کہ وہ عام شکل صورت کی ہے۔ وہ بارہ تیرہ سال کی تھی، یا اِس سے کچھ اوپر؛ سہاروں کی تلاش میں کسی کو چاہنے لگی۔ یوں پہلی بار جنسی تعلق کے کچے پکے ذائقے سے آشنا ہوئی۔

وہ مجھے ٹرین میں ملی تھی۔ ریل کے راستے سفر کرنا مجھے پسند ہے، لیکن ہم سفروں سے بات چیت کرنے سے اجتناب برتتا ہوں۔ کوشش ہوتی ہے کہ ٹرین چلتے ہی کتاب کھول کے بیٹھ جاوں، یا کھڑکی کے قریب نشست ہو، تو باہر دوڑتے بھاگتے مناظر میں جی لگا لیتا ہوں۔ اِس لیے کہ ارد گرد بیٹھے مسافروں کے بے تکے سوال جواب کے سیشن سے جان چھڑائی جاسکے۔ یہ نہیں کہ میں مردم بیزار ہوں، لیکن مجھے چھوٹتے ہی ذاتی نوعیت کے سوالات کیے جانے سے چِڑ ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں کا چلن یہ ہے، کہ کسی کا نام بھی نہیں پوچھا جاتا، اور پہلا سوال یوں کرتے ہیں۔

’’آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘

طبیعت پہ جبر کر کے کہا جائے، کہ ’’میں لکھتا ہوں‘‘، تو اگلا سوال داغ دیا جاتا ہے، ’’اِس سے آپ کا گزارا ہوجاتا ہے؟ کتنے پیسے کما لیتے ہیں‘‘؟

مطالعے کے بہت سے فوائد ہیں، اِن میں ایک یہ ہے کہ آپ ہم سفروں کے مہمل سوالوں سے بچ جاتے ہیں۔

سفر کرداروں سے ملاتے ہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ ٹرین کی ’اَپر کلاس‘ میں آپ کو زیادہ کہانیاں نہیں ملتیں، جو ’اِکانومی کلاس‘ کے ڈبے میں بکھری دکھائی دیتی ہیں۔ اِس کہانی کے اِس کردار سے ’اَپر کلاس‘ کے ’کوپے‘ میں ملاقات ہوئی۔

تحریر دِل چسپ تھی، لیکن کوپے میں مدھم روشنی کے باعث کتاب کے صفحوں پر نظریں ٹِکانے سے میری آنکھیں درد کرنے لگی تھیں؛ کتاب ایک طرف رکھ کے باہر دیکھا؛ گھپ اندھیرا تھا۔ ٹرین کی چھکا چھک واضح سنائی دے رہی تھی، جو کتاب پڑھتے کہیں گم تھی۔ کھڑکی کے بند شیشے میں اس کا عکس دکھائی دیا۔ سامنے کی نشست کی پشت سے ٹیک لگائے وہ آنکھیں موندے بیٹھی تھی۔ میں نے گردن گھما کے اسے دیکھا۔ اس کے ہونٹ پتلے تھے، نہ موٹے؛ ناک ستواں، جو اس خطے کے باشندوں کی کم کم ہوتی ہے؛ گال بھرے بھرے، ٹھوڑی نازک، لیکن گوشت سے بھری، رنگت صاف تھی، پپوٹوں سے ظاہر تھا، کہ آنکھیں بہت بڑی نہیں ہیں۔ انھی لمحات میں اس نے آنکھیں کھول دیں، جیسے پپوٹوں کے پیچھے سے محسوس کرلیا ہو، کہ کوئی اُسے دیکھ رہا ہے؛ اُس کی بھوری آنکھیں لمبائی میں عام سی تھیں، لیکن گہرائی میں اتنی زیادہ، جس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ کتنی گہری ہیں، لیکن ڈوبنے کا اندیشہ بہرحال ہوتا ہے۔

اُس کی عمر یہی کوئی تیس بتیس سال رہی ہوگی۔ کوپے میں ہم چار ہی تھے، دو مرد اوپر کی برتھ پر سورہے تھے، اُن میں سے ایک اس لڑکی کے ساتھ تھا۔ یہ مجھے اِس لیے معلوم ہے کہ وہ سفر کے آغاز میں اس لڑکی کے پہلو میں بیٹھا تھا۔ شاید کوئی عزیز ہو۔ موٹی سی توند والے اُس شخص کے دھیمے دھیمے خراٹے رُک رُک کے سنائی دیتے تھے۔ میں نے کلائی گھڑی دیکھی، رات کے گیارہ سے کچھ زائد کا عمل تھا۔

’’آپ شاید سونا چاہتی ہیں، اور لائٹ؟‘‘ میں نے اپنی خجالت مٹانے کے لیے کہ دیا۔ اُس کے لب ہی نہیں آنکھیں بھی مسکرائیں؛ جیسے وہ مجھے برسوں سے جانتی ہو۔

’’نہیں! لائٹ بند ہوئی تو میرے لیے یہاں بیٹھنا مشکل ہوگا۔ مجھے اندھیرے سے خوف آتا ہے‘‘۔ میں کچھ کہتا، اس سے پہلے ہی پوچھ بیٹھی، ’’آپ لکھتے ہیں، ناں‘‘؟

کسی کا نام پوچھنے سے پہلے اُس کے پروفیشن کے بارے میں سوال کرنا، یہ پہلی بار تھا کہ مجھے معیوب نہیں لگا۔

’’آپ کو کیسے پتا‘‘ِ مجھے خوش گوار حیرت ہوئی۔

’’میں نے آن لائن پیپر میں آپ کی تصویر دیکھ کے پہچانا۔ اچھا لکھتے ہیں، آپ‘‘۔ وہ ٹھیر ٹھیر کے بات کررہی تھی، میں مسرور ہوا جیسے ہر لکھنے والا پہچانے جانے پر ہوتا ہوگا۔ ’’کیا آپ میری کہانی لکھیں گے‘‘؟

’’آپ کی کہانی‘‘؟ میں نے غیر معمولی اچمبھے کا اظہار کیا۔

’’کیوں؟ کیا پہلے کبھی کسی کی کہانی نہیں لکھی‘‘؟ اُس کے پرسکون انداز میں رتی بھر کمی بیشی نہ ہوئی۔

’’لکھی تو ہے، لیکن۔۔ لیکن ایسے تھوڑی لکھی جاتی ہیں‘‘۔ میں اُسے سمجھا نہ پاتا۔

’’تو کیسے لکھی جاتی ہیں؟ آپ تو رائٹر ہیں، آپ کے لیے لکھنا کیا مشکل ہے‘‘!

یہ جملہ میں نے کئی بار سنا ہے، اور کئی بار سنتا ہوں؛ نہ جانے اور کتنی بار سننا ہوگا؛ ہر بار مسکرانے کے سوا، مجھ سے کوئی جواب نہیں بن پاتا؛ ممکن ہے کسی روز مسکرانے کے علاوہ کوئی جواب دے پاوں۔

’’لکھیں گے، آپ‘‘؟ اس نے ایسے اُمید سے دیکھا، جیسے وہ میلوں پیدل چل کر مجھ سے اپنی کہانی لکھوانے ہی آئی ہو۔

کوئی ایک دم سے ایسا بے تکلف کیوں کر ہوجاتا ہے؛ ایسا اعتماد کون دیتا ہے! سفر میں کوئی جادو ہے، کہ ہم سفر کھلتے چلے جاتے ہیں۔ پنجابی اکھان ہے، ’’راہ پیہا جانڑے، یا واہا پیہا جانڑے‘‘۔ آپ کسی کے ساتھ لین دین کریں یا سفر کریں وہ تبھی پہچانا جاتا ہے۔ سفر میں ملمع اُتر جاتا ہے۔ یہ پنجابی اکھان میرا آزمودہ ہے۔ کئی احباب کے ساتھ سفر کر کے، ان کے متعلق اپنی رائے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوا ہوں۔

’’کیا کہانی ہے، آپ کی‘‘؟ مجھے اس میں دل چسپی پیدا ہوئی۔

باقی افسانہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran