پکوڑے اور اجتہاد


قائد اعظم یونیورسٹی سے نکلے دس یا شاید گیارہ سال ہو گئے اب نجانے کیا صورت ہو گی لیکن جن دنوں ہم وہاں تھے یونیورسٹی میں رمضان کا بھرپور اہتمام ہوتا تھا۔ کھانے پینے کے تمام ٹھکانے دن بھر بند رہتے تھے۔ کینٹین کے کھانوں پر بھنکنے والی مکھیوں کو خالی میز کرسیوں پر بھنکنا پڑتا تھا۔ ہاسٹل کے میس سے کھانا کھا کر بدہضمی کروانے اور روزہ نہ رکھنے کا عذر شرعی مہیا کرنے کی سہولت بھی صرف بعد نماز مغرب فراہم کی جاتی تھی۔ غرض ایک روح پرور نظارہ دیکھنے کو ملتا تھا جس میں بھوک سے بے حال نوجوانان ملت حصول علم کی مشقت سے تنگ آ کر احترام رمضان میں ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑ رہے ہوتے تھے۔ یونیورسٹی شہر سے بارہ پتھر باہر تھی سو کہیں جا کر کچھ کھا لینا غیر شرعی ہونے کے ساتھ ساتھ غیر ممکن بھی تھا۔ یوں سمجھ لیجیے اللہ میاں کے نام پر مارشل لاء ضیاء کے بعد اگر کسی نے لگایا تھا تو وہ ہمارے وقتوں کی یونیورسٹی انتظامیہ تھی۔

لے دے کر تازہ پھلوں کے جوس کی ایک دکان تھی وہ بھی رمضان کے احترام میں پھلوں کا رس خریدنے والوں کی جیبیں نچوڑنے کا کام صبح سے نماز عصر کے وقت تک معطل رکھتی تھی اور صرف پھل بیچا کرتی تھی۔ مزید احتیاط یہ تھی کہ پھل کاٹ کر فراہم کرنا بھی معطل ہو جاتا تھا اور سالم پھل فروخت کیے جاتے تھے۔ یہ سالم پھل اور ایک جنرل سٹور پر دستیاب چند بد ذائقہ سینڈوچ روزہ خوروں کو دستیاب تھے لیکن روزہ خوروں کی تعداد اس قدر تھی کہ سینڈوچ کی ایسی کئی دکانیں اور پھلوں کے چند باغات بھی روزہ بہلانے کو ناکافی ہوتے۔ نتیجہ یہ کہ عام طور پر عصر کے وقت سینڈوچ کی خالی ٹرے دیر سے دکان تک پہنچنے والوں کا منہ چڑایا کرتی تھیں اور پھل والا یونیورسٹی سے ہاسٹل لوٹنے والوں کی واپسی کے وقت کا اندازہ لگا کر مسجد میں گھس جایا کرتا تھا تاکہ پھلوں کی عدم دستیابی پر اس کے درجات بلند کرنے کے خواہشمند حضرات کا غیر موجود روزہ خراب نہ ہو۔

خوراک کے اس اندوہناک کرائسس میں یونیورسٹی کے نزدیک ایک ہوٹل والے نے عجب اجتہادی راستہ نکالا تھا کہ جسے دیکھ کر قرون اولی کے مسلمان یاد آ جایا کرتے تھے۔ طریقہ اس مجتہد عصر بلکہ مجتہد ظہر کا یہ تھا کہ وہ شام ساڑھے سات بجے ہونے والی افطاری کے لیے ظہر سے بھی پہلے کڑھائی چڑھا دیا کرتا تھا اور پکوڑے تلنے شروع کر دیتا تھا۔ مزید اہتمام یہ تھا کہ پکوڑے تلنے اور تولنے کا سامان تو سڑک کنارے ایک چھدرے سے درخت کے سائے میں کیا گیا تھا لیکن ان پکوڑوں کی قیمت دینے دس پندرہ قدم دور ایک دکان کے کاونٹر پر جانا پڑتا تھا جہاں خریدار کو پیسے پکڑتے ہوئے بتایا جاتا تھا کہ محدود تعداد میں روٹی بھی دستیاب ہے اگر کوئی خریدنا چاہے تو۔ اگر خریدنے والا حیرت سے پوچھے روٹی تو اسے بتایا جاتا تھا کہ سحری میں کچھ بچ گئی تھی میں نے سوچا آپ سے پوچھ لوں۔ خریدار اگر خریدار ہونے کے ساتھ ساتھ سمجھدار بھی ہو تو وہ عام طور پر ایسے اینڈے بینڈے سوال نہیں کیا کرتا تھا اور دو دے دیو کہہ کر پکوڑوں کی قیمت کے ساتھ روٹی ک نذرانہ بھی پیش کر دیا کرتا تھا۔

نتیجہ اس اجتہاد کا یہ تھا اگر آپ ظہر سے عصر کے درمیان ہاسٹل کے دروازے پر کھڑے ہوں تو فوج در فوج مسلمان پکوڑوں کی تھیلیاں ایک ہاتھ میں اٹھائے دوسرے ہاتھ سے ان میں چٹنی کے پیکٹ ٹٹولتے جوق در جوق ہاسٹل کی طرف آتے دکھائی دیتے تھے۔ شام سات بجے کھلنے والے روزے کے لیے دوپہر بارہ بجے پکوڑے تلنے کی ترکیب جس دماغ میں آ سکتی ہے اگر وہ آج سے گیارہ بارہ سو سال پہلے پیدا ہونے والی کسی کھوپڑی میں ہوتا تو میرا خیال ہے اپنے وقت کا فقیہہ قرار پاتا۔ اب صرف گیارہ سو سال لیٹ ہو جانے کی وجہ سے وہ پکوڑے بیچ رہا ہے تو اس سے آپ مسلمانوں میں اہل علم کی ناقدری کا اندازہ لگا سکتے ہیں اگرچہ ہمارے کمزور ایمان والے دوستوں کا خیال ہے کہ جو گیارہ سو سال پہلے فقیہہ تھے ان میں سے زیادہ تر آج ہوتے تو پکوڑے ہی بیچ رہے ہوتے۔ خیر کمزور ایمان والوں کی باتوں کا کیا کرنا، بارہ بجے کے تلے پکوڑے سات بجے کھانے کے لیے معدہ مضبوط چاہئیے، ایمان تو پلاسٹک کا بھی مل جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).