میاں صاحب کا مجوزہ کمیشن اور پاکستان کا ملکی مفاد


اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ نواز شریف کا لہجہ اور انداز سیاست تبدیل ہو رہا ہے۔ یہی میاں صاحب تھے جو نرم گوئی، بردباری اور معاملہ فہمی کے لئے مشہور تھے، اب ہر وقت اپنے بیانات سے آگ برسا رہے ہوتے ہیں۔ ان کے قریبی احباب بھی یہ بتاتے ہیں کہ نواز شریف جس قدر غصے میں آج کل ہیں، اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ شاید اسی طیش کے عالم میں سرل المیڈا کو ایک انٹرویو دیا اور سیاست میں بھونچال بپا کر دیا۔ اس بیان میں جو سوال اٹھایا گیا تھا اس کا جواب دینے کے بجائے حسب روایت غدار، غدار کے نعرے لگنے لگ گئے۔ عموما ایسی صورت حال میں ایسے بیانات کی تردید سامنے آتی ہے۔ لیکن اگلے دن میاں صاحب نے تردید کے بجائے مزید آگ بھڑکا دی۔ آگ بھی ایسی جس کے شعلوں سے سارے چینلوں پر مسلم لیگ ن کے حامی یک دم بھسم ہو گئے۔

قریبی حلقے بتاتے ہیں کہ میاں صاحب کا غصہ اس بات پر نہیں تھا کہ ان کے بیان کو پس منظر میں سمجھنے کی بجائے جان بوجھ کر الیکٹرانک میڈیا پر غلط انداز میں پیش کیا گیا، بلکہ ان کی شعلہ آفرینی کی وجہ یہ تھی کہ جو کچھ میاں صاحب نے اس انٹرویو میں فرمایا تھا اس کا دس فیصد حصہ بھی اخبار کی زینت نہ بن سکا۔ شاید اسی وجہ سے میاں صاحب کو اگلے روز ایک پریس بریفنگ میں یہ دوہرانا پڑاکہ جو کچھ میں نے کہا تھا اس کی تردید نہیں تائید کرتا ہوں۔ اسی تند وتیز گفتگو کے درمیان نواز شریف نے قومی کمیشن بنانے کا مطالبہ بھی کردیا۔ بقول ان کے اس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔

اس ساری گفتگو میں قومی کمیشن کی بات احباب کے لئے نئی تھی۔ ابھی اس کی حمایت اور مخامصت میں کوئی رائے نہیں قائم کی جا سکی۔ اس ادھوری بات پر نہ ہی کوئی اتفاق رائے ہوا ہے نہ پارلیمان میں اس پر بحث ہوئی نہ میڈیا نے اس سلسلے میں کسی مکالمے کو جنم دیا۔ کہیں انجام جیو نیوز اور ڈان نیوز جیسا نہ ہو اس لئے خوفزدہ سے ٹی وی چینل بھی اس تنازعے کو چھیڑنے سے اجتناب کر رہے ہیں۔ اخبارات بھی اداریوں میں محتاط ہو گئے ہیں۔ مبصرین کرام بھی بات کو سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔ کالم نگار بھی اس طرح کے متنازعہ موضوعات سے احتراز کرنے لگے ہیں۔ اس لئے اس مطالبے نے ابھی تک جڑ نہیں پکڑی۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو اس مطالبے میں ایسی کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ یہ وہ کام ہے جو بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ اب بھی بہت دیر نہیں ہوئی۔ جتنی جلدی ممکن ہو اس کمیشن کا قیام ہو جانا چاہیے تھے۔ اس لئے کہ اس کمیشن کے قیام میں سراسر ملکی مفاد مضمر ہے۔ اور اگر نوازشریف نے واقعی کچھ غلط کیا ہے تو وہ قوم کے سامنے آنا چاہیے۔

دنیا میں کوئی ملک اور قوم ایسی نہیں جس سے داخلی، خارجی، معاشی، معاشرتی اور سماجی غلطیاں سرزد نہ ہوئی ہوں۔ بڑی قومیں وہ کہلاتی ہیں جوخود ان غلطیوں کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اپنی غلطیوں کو قبول کرتی ہیں۔ ان سے سبق حاصل کرتی ہیں اور اس سبق کو پیش منظر میں رکھ کر مستقبل کا لائحہ عمل طے کرتی ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے ہم ابھی تک پہلی سیڑھی پر ہی کھڑے ہیں۔ اپنی خامیوں اور خطاوں کی نشاندہی ہم کو قبول نہیں ہے۔ جیسے ہی کوئی ہماری غلطیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے ہمارا ملکی سلامتی کا بت پاش پاش ہونے لگتا ہے۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ قومیں غلطیوں کی نشاندہی سے نہیں بلکہ ان سے نظریں چرانے کی سبب تباہ ہوتی ہیں۔ یاد رکھیں، سوال کی جستجو ہی جواب کی منزل تک پہنچاتی ہے۔

اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ہماری تاریخ کی کتاب میں بہت سے صفحات خالی ہیں۔ بہت سا ابہام پایا جاتا ہے جس کے جواب درکار ہیں۔ ہمیں آج تک نہیں پتہ کہ کیا یہ درست بات ہے کہ قائد اعظم کی گیارہ اگست کی ایک ایسی تقریر تھی کہ جس کی ریکارڈنگ میں سے چند جملے نکال دیے گئے تھے، آخر ایسا کرنے کی کیوں ضرورت پیش آئی؟ ہمیں یہ نہیں معلوم کی لیاقت علی خان کو کیوں گولی مار دی گئی تھی؟ ان کا قاتل اور ان کے قاتل کا قاتل کون تھا؟ وہ کون سے حالات تھے جنہوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان کو مارشل لاء لگانے پر مجبور کیا؟ کن وجوہات کی بناء پر فاطمہ جناح کو غدار کہا گیا؟ ریڈیو پر ان کی تقریر کو نشر کرتے ہوئے خلل کیوں ڈالا گیا؟

مشرقی پاکستان کے حالات کیوں خراب ہوئے اور ان کے احساس محرومی کی وجہ کون سے عوامل بنے؟ کس بنیاد پر وطن کے جسد کے ایک کے ٹکڑے کی علیحدگی کا فیصلہ ہوا؟ مکتی باہنی کے بارے میں پہلے سے پیش بندی کیوں نہیں کی گئی؟ یحیی خان کیسے چور دروازے سے اقتدار میں آگئے؟ بھٹو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کیوں بنے؟ آج تک تہتر کا آئین کیوں نہیں قابل عمل ہو سکا؟ کیا بھٹو نے 1977کے انتخابات میں دھاندلی کروائی تھی؟ بھٹو کے عدالتی قتل کی کیا ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا ٖافغان جہاد میں شرکت کی وجہ جذبہ ایمانی تھا یا پھر امریکی امداد؟ اوجڑی کیمپ کا سانحہ کیوں ہوا اور اس کی تحقیقات کا کیا نتیجہ نکلا؟ جونیجو جیسا شریف آدمی کس طرح کرپشن کے الزامات کا حقدار ہوا؟ ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کے پیچھے چھپے عوامل کون سے تھے؟ اسحاق خان اچانک سے منظر عام پر آگئے تھے یا برسوں سے ان کی تربیت کا سلسلہ جاری تھا؟

نواز شریف اور بے نظیر کی حکومت کو دو، دو مختصر باریاں کیوں دی گئیں؟ کیا نواز شریف نے مشرف کا طیارہ اغواء کروانے کا حکم دیا تھا؟ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے پیچھے کون کون سے عوامل تھے؟ کیا ہم واقعی نائن الیون کے بعد امریکہ کہ ایک فون کال پر ڈھیر ہو گئے تھے؟ مشرف کے جانے میں جنرل کیانی کس حد تک ملوث تھے؟ چیف جسٹس کی بحالی سے کون کون منکر تھا؟ عمران خان کے دھرنوں میں پوشیدہ قوتیں کون کون سی تھیں؟ نواز شریف کی برطرفی کے حامی عناصر کون، کون تھے؟ پاناما کی جے آئی ٹی کس طرح تشکیل پائی تھی؟ حسین نواز کی تصویر کس نے لیک کی تھی؟ ان سب سوالوں کا جواب مل جائے تو ملکی تاریخ کا رخ درست کرنے میں بہت مدد ملے۔ امید ہے کہ مجوزہ قومی کمیشن ان سارے معاملات پر روشنی ڈالے گا۔

معاشی سطح پر ان سوالوں کا جواب بھی ضروری ہے کہ ستر سالوں کے بعد بھی اس ملک میں سڑکیں کیوں نہ بن سکیں؟ ہسپتال اور سکول کیوں میسر نہیں آ سکے۔ بجلی کا بحران کیوں حل نہیں ہو سکا؟ ٹورازم کو فروغ کیوں نہیں مل سکا؟ دنیا بھر میں پاکستانی پاسپورٹ کی عزت کیوں نہیں ہو سکی۔ ہماری زیادہ تر آبادی کو صاف پانی کیوں نہیں میسر ہو سکا؟ اور یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کیوں ہمارے سب عوامی نمائندے رفتہ رفتہ کرپٹ، غدار اور کافر کے درجات پر کیوں فائز ہوتے رہے۔ اس ملک خداداد میں ستر سال میں جمہوریت کی بیل کیوں منڈھے نہیں چڑھ سکی؟

اس کے علاوہ سماجی طور پر بھی کچھ سوال، جواب طلب ہیں۔ ہمیں پتا ہونا چاہیے کہ اس ملک کی تاریخ میں کب، کون کس کا آلہ کار بنا؟ کس نے، کب ملکی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی؟ کس نے غداری کا بہتان ایجاد کیا؟ کس نے کفر کے فتوے دینے والوں کو جلا بخشی؟ کس نے

وطن فروشی کی؟ کس نے حرمت وطن پر اپنی انا کو قربان کیا؟ کس نے کتنی کرپشن کی؟ کس نے اس وطن کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا؟ یہ بہت سے سوال تشنہ ہیں۔ ان کے جواب ہی ہمارے مستقبل کے راہ متعین کریں گے۔ ہمں ایک باعزت قوم بننے میں مدد کریں گے؟

بدقسمتی سے دنیا میں جہاں بھی کوئی دہشت گردی کا نام آتا ہے وہیں کسی نہ کسی بہانے دنیا اس سانحے کو پاکستان سے جوڑنے کی کوشش کرتی ہے۔ ہم پر دہشت گردوں کی فنڈنگ کے حوالے سے بے پناہ الزامات لگ چکے ہیں۔ اس سارے معاملے میں ہماری خطا کیا ہے؟ کیا 80 کی دہائی میں پروان چڑھنے والے مجاہد اب دہشت گردوں کا روپ اختیار کر چکے ہیں یا پھر ہم دنیا کے ساتھ ایک دوغلی پالیسی اختیار کیئے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی برادری ہم پر غلط الزام عائد کر رہی ہے یا ہم خود اپنے گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں؟ ان الزامات کے جواب میں میاں صاحب کا تجویز کردہ ایک عام سا قومی کمیشن کافی نہیں ہے۔

اس ملک کی اساس کو درست سمت میں لانے کے لئے صائب الرائے اور آئین سے کمٹ مینٹ رکھنے والے ایسے پاکستانیوں کا کمیشن بنایا جانا چاہیے جن کو کبھی کوئی جبر یا لالچ آئین کی حکمرانی سے دور نہ ہٹا سکا ہو۔ پاکستان کے تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر پاکستان کا مقدمہ لڑیں۔ ایک ہی دفعہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر یں اور ہماری تاریخ میں خالی جگہیں پر کریں۔ ملک کو راہ راست پر لانے کے لئے ضروری ہے کہ اس کمیشن کا فیصلہ تمام سٹیک ہولڈرز مانیں۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar