دیہاتی خواتین میں خود کشی کا رجحان بڑھ کیوں رہا ہے؟


دیہی علاقوں میںخواتین خود پر ہونے والے ظلم و تشدد سے اتنی عاجز آچکی ہیں کہ اب ان میں خودکشیوں کا رجحان بڑھ گیا ہے اور کئی علاقو ں میں اجتماعی خودکشیوں کے واقعات بھی پیش آچکے ہیں جن میں بعض عورتوں نے اپنے بچوں کے ساتھ کووئیں میں کود کر خوکشی کرلی۔ بعض دفعہ عورتوں کو قتل کرنے کے بعد ان کی موت کو خودکشی کا رنگ دے دیا جاتا ہے، جو پولیس تفتیش کے نتیجے میں قتل کا واقعہ ثابت ہوتا ہے۔ایسا ہی ایک واقعہ ایک ہفتے قبل ننگرپارکر کے گاؤں چھچھی میں پیش آیا جس میں ایک خاتو ن نے خود کو موت کے حوالے کردیا۔

تفصیلات کے مطابق 35 سالہ خاتون شریمتی گومی جس کی شادی دس سال قبل بھلیو کولہی سے ہوئی تھی اور وہ چار بچوں کی ماں تھی۔ اس کی اکثر اپنے شوہر کے ساتھ ناچاقی رہتی تھی جو اس پر جسمانی تشدد کرتا تھا۔ اس نے روز روز کی مار پیٹ سے تنگ آکر گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرلی۔ اسی طرح کا دوسرا واقعہ چھور ریلوے اسٹیشن ہاسیسر کے قریب پپنہوں گوٹھ میں رونما ہوا ہے جس میں علی مراد پنہوں کی22 سالہ بہو مسمات حاجیانی زوجہ علی محمد اپنے کمرے میں مردہ پائی گئی جس کی پھندا لگی لاش فرش پر ٹکی ہوئی تھی جب کہ رسی کا دوسرا سرا چھت سے بندھا ہوا تھا۔ متوفیہ کے سسرال والوں نےاس کے والدین کو اطلاع دی جنہوں نے موقع واردات پر پہنچ کراس کی لاش دیکھنے کے بعداسے خودکشی تسلیم کرنے سے انکار کردیااور پولیس کو اطلاع دی۔ جس نے وہاں آ کرمیت اپنی تحویل میں لے کر سول اسپتال پہنچائی جہاں اس کا پوسٹ مارٹم کیا گیا جس کی رپورٹ میں متوفیہ کے بدن پرتشدد کاکوئی نشان نہیں ملا۔ڈاکٹروں نے اس کے جسم کے اجزاء لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے کراچی بھیج دیئے ہیں اوراس کی رپورٹ ملنے کے بعد پولیس قتل یا خودکشی کا تعین کرسکے گی۔

متوفیہ حاجیانی کی والدہ مسمات صاحباں نے سول اسپتال میںذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ میری بیٹی حاجیانی کی 13 سال قبل علی محمد سے شادی ہوئی تھی۔ شادی کے کچھ عرصے بعد علی محمد اور حاجیانی کےوالدین نے اس پر ظلم و تشدد شروع کردیا۔ وہ معمولی باتوں پر بھی اسے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔ جب ہمیں معلوم ہوا تو ہم نے مقتولہ کےشوہر اور سسرال والوں کو بہت سمجھایا انہیں خدا اور رسول کے واسطے دیئے لیکن ان کے ظلم و تشدد میں کمی آنے کی بجائےاضافہ ہی ہوتا رہا۔ جس کی وجہ سے تنگ آکر ہم اسے اپنے گھر لے آئے اور اسے طلاق دلوانے کے لیے مقامی عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہوا تھا۔ کچھ عرصے قبل لڑکے کا بہنوئی، علاقے کے وڈیروں اور معززین کو لے کر ہمارے گھر آیا اورمنت سماجت کر کے یقین دہانی کرائی کہ آپ کی بیٹی حاجیانی ہماری ذمہ داری ہے، اس پر اب کوئی بھی تشدد نہیں کرے گا۔ ہم نے بچی کو ان کی یقین دہانیوں کے بعد سسرال بھیج دیا۔ کچھ عرصے تک ان لوگوں کا رویہ اس کے ساتھ بہتر رہا لیکن بعد ازاں اس کے ساتھ لڑائی، جھگڑ وں اور ظلم و زیادتیوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا۔

ہمیں محلے والوں کی زبانی علم ہوتا رہا کہ اس کا شوہر اور سسرال والے اس پر بہیمانہ تشدد کرتے ہیں، ہم نے لڑکے کے بہنوئی، وڈیروں اور معززین سے بھی اس سلسلے میں رجوع کیا لیکن انہوں نے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا، ہم نے بیٹی کو دوبارہ اپنے گھر لے جانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اسے میکے بھیجنے سے انکار کردیا، ایک طرح سے انہوں نے اسے حبس بے جا میں رکھا ہوا تھا۔اب انہوں نے اس قضیئے کو ہمیشہ کے لیےختم کرنے کے لیےاسے چالاکی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا۔حاجیانی کےشوہر علی محمد، سسر علی مراد اور دیور رمضان نے ہماری بیٹی کو تشدد کرکےقتل کرنے کے بعدخود کو قانون کی زد سے محفوظ رکھنے کے لیےمقتولہ کے گلے میں پھندا ڈال خودکشی کا واقعہ دکھانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ میری بیٹی ان کے تشدد سے ہلاک ہوئی ہے۔ پوسٹ مارٹم کے بعد لڑکی حاجیانی کے والد محمد سومار پنہوں نے چھور پولیس تھانے پر شوہر علی محمد ڈرائیور سسر علی مراد اور دیور رمضان پنھوں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کروادیا ، جس کے بعد پولیس نےحاجیانی کے شوہر علی محمد پنھوں سسر علی مراد کوگرفتار کرلیا ہےجب کہ دیور رمضان پنھوں روپوش ہو گیا ہے۔ پولیس کو لیبارٹری رپورٹ کا انتظار ہے جس کے بعدمقدمہ کا چالان عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

سندھ اسمبلی سے چند سال قبل تحفظ نسواں، کم بچیوں کی شادی اور غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بل پاس ہوچکے ہیں لیکن ان پر اب تک عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے جس کی وجہ سے اس نوعیت کے واقعات کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔بہت سی خواتین جو ظلم و تشددو جھیلتے جھیلتے تنگ آجاتی ہیں، وہ خودکشی کرلیتی ہیں۔ بعض دفعہ شوہراور سسرال والے خاتون پر جان لیوا تشدد کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہوجاتی ہیں، اور وہ قانون کی دسترس سے بچنے کے لیے اسے خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ دیہی علاقوں کے عوام میں عورتوں کی عزت و حرمت کا شعور اجاگر کیا جائے، لوگوں کو بتایا جائے کہ عورت بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے وہ بھی انسان ہونے کے ناتےجینے کا حق رکھتی ہے، اس پر ظلم و تشدد کی بجائے محبت و پیار کی ضرورت ہے، گھریلو اختلافات پر اسےجسمانی اذیتیں دینے کی بجائے انہیںباہمی گفت و شنید سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔

بشکریہ؛ روزنامہ جنگ

تحریر؛حاجی گل حسن آریسر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).