چار وزارتوں کے لیے پنجاب سے تعصب


سا اوقات ایک چنگاری سب کچھ جلا کر بھسم کر ڈالتی ہے ۔ چنگاری چھوڑنے والے چاہے بعد میں جتنے بھی بے گناہ اور نظریاتی کہلانا چاہیں،ان کے سبب بہت نقصان ہو جاتا ہے۔ سیاسی دنیا میں عموماً اس کا علم بھی ہوتا ہے کہ چنگاری کیا کر ڈالے گی لیکن جان بوجھ کر نتائج سے انجان بنا جاتا ہے۔ سندھ کی تاریخ میں ہندو مسلم تشدد غیر معمولی واقعہ تھا ۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ سکھر میں ایک ٹوٹا ہوا مکان تھا جسے مسلمان ’’منزل گاہ والی مسجد‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ اس جگہ کا قبضہ حاصل کرنے کے لئے سکھر اور شکار پور کے مسلم رہنمائوں نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ اللہ بخش سومرو سے ملاقاتیں کیں۔ یہ 1939 کا زمانہ تھا۔ وزیر اعلیٰ اللہ بخش سومرو نے مذہبی رائے حاصل کرنے کی غرض سے جمعیت علمائے سندھ کے علماء کو زمین کا جائزہ لینے اور اس کی شرعی حیثیت کے متعلق رائے دینے کا کہا۔ علماء نے اس جگہ پر مسجد ہونے کی تصدیق کی مگر ہندوئوں کو یہ اعتراض تھا کہ اس مقام کے سامنے سادھو بیلا کا مندر ہے۔ جہاں ہندو خواتین اپنی مذہبی رسوم ادا کرنے آتی ہیں۔

مسجد کی موجودگی کے سبب سے بدمزگی پیدا ہو گی اور مسلمان ان خواتین کے لئے مسائل کا باعث بنیں گے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا کہ مسلمانوں کا وفد اس وقت کے سندھ مسلم لیگ کے صدر حاجی عبداللہ ہارون کے پاس آیا۔ سندھ مسلم لیگ نے اس حوالے سے ستیہ گرہ کا پیغام تشکیل دیا کہ جب جگہ مسجد کی ہے تو مسلمانوں کو مل جانی چاہیے۔

اس تحریک کو دبانے کے لئے حکومت نے آرڈیننس پاس کروایا اور تقریباً ساڑھے تین ہزار لوگوں کو جیلوں میں بند کر دیا گیا ۔ اس سب کے باوجود اس وقت تک تحریک مسجد کی جگہ پر قبضے تک محدود تھی اور یہ کہ ہندو مسلم فسادات نہ ہوئے تھے نہ ہونے کے امکانات تھے۔ مگر جی ایم سید مرحوم، جو کچھ عرصہ قبل ہی مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے ،نے دیگر قیادت کی گرفتاری کے بعد اس تحریک کی قیادت سنبھالی اور پر امن تحریک کو تشدد میں تبدیل کرتے ہوئے ’’مسجد منزل گاہ والی‘‘ پر زبردستی قبضہ کر لیا۔

پولیس آ گئی اور 19نومبر 1939کو جی ایم سید کو کچھ ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا گیا۔ مسجد کی جگہ خالی کروانے کے لئے وہاں موجود افراد پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال ہوا۔ قبضہ چھڑا لیا گیا مگر اسی دن ہندو مسلم فسادات بھی شروع ہو گئے۔ بے گناہ انسان مارے گئے ۔ جائیدادیں نذرِ آتش کردیں۔ جی ایم سید کے اپنے بقول اس واقعہ نے پورے سندھ میں صدیوں سے قائم اکائی اور وحدت والی دیوار میں دڑاریں ڈال دیں۔

صوفی اور سادھوئوں کا سندھ، فرقہ پرستی کی آگ کی لپیٹ میں آ گیا۔ اس آگ نے آگے چل کر سارے سندھ کے محبت اور یگانگت والے چمن کو جلا کر راکھ کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کی پہلی چنگاری خود جی ایم سید مرحوم نے سلگائی تھی وہ 2 ماہ بعد نظر بندی سے رہا ہوئے تو نقصانات پر افسوس کے بیان جاری کرتے رہے۔ لیکن اس دوران دیہات میں رہنے والے ہندوئوں کو بھی خطرات لاحق ہو گئے جو اللہ بخش سومرو کی حکومت ختم نہ کروا سکی۔ حالات سے پریشان ہندوئوں کے ساتھ مل کر جی ایم سید نے اللہ بخش سومرو حکومت ختم کروا دی۔

 میر بندہ علی وزیر اعلیٰ سندھ بن گئے۔ جبکہ جی ایم سید مرحوم تعلیم ، انڈسٹری ، لیبر اور جنگلات کے وزیر بن گئے۔ بات کیا تھی، نتیجہ وزارت بن گیا۔ جو چنگاری سے تخلیق پائی تھی۔ کہیں جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا تذکرہ کر کے پنجاب میں بھی تو کوئی چنگاری نہیں سلگائی جا رہی۔ مجھے اس سے کوئی اختلاف نہیں کہ کوئی پاکستان میں نئے صوبوں کی تشکیل چاہتا ہے۔ یہ اس کا آئینی حق ہے کہ وہ ایسا خیال رکھیں اور اس کو پیش کریں۔ جیسے یہ ہمارا حق ہے کہ ہم اس کی رائے سے اختلاف کریں یا اتفاق کریں۔

لیکن اگر صوبے کی تقسیم اور نئے صوبے کی تشکیل اس بنیاد پر ہو کہ لاہور میں وسائل ان کے بقول بہت زیادہ جھونک دیئے گئے ہیں تو اس سے تعصب بالکل واضح طور پر چھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔ جب صرف لاہور کا نام لیکر برا بھلا کہا جاتا ہے تو اس سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ یہ نظریہ پیش کر رہے ہیں کہ باقی صوبوں میں تو انصاف سے وسائل تقسیم ہو رہے ہیں۔ لیکن لاہور کے شہری دوسروں کے وسائل پر عیاشی کر رہے ہیں۔

جنوبی پنجاب صوبہ محاذ اور تحریک انصاف کی مشترکہ پریس کانفرنس میں تحریک انصاف کے چیئرمین نے جو لب و لہجہ لاہور کے لئے اپنایا وہ درست نہ تھا۔ اس سے پہلے بھی وہ کئی بار لاہور کے لئے ایسے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔ اس لئے ان کے حوالے سے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ مگر جنوبی پنجاب کی بات کر کے محرومیوں کا ذمہ دار لاہور کو قرار دینا وہاں تعصب بھڑکانے کی کوشش کے علاوہ اور کیا ہے۔

بات صرف لاہور تک محدود نہیں کیونکہ لاہور علامت ہے۔ پورا پنجاب اس علامتی حیثیت کے ساتھ یہ ایسے ہی ہے کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ واشنگٹن یہ کہہ رہا ہے تو اس کا مقصد فقط ایک شہر نہیں بلکہ پورا امریکہ ہوتا ہے۔ اسی طرح جب لاہور کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو صرف لاہور ہی نہیں پورے پنجاب سے تعصب صاف محسوس ہوتا ہے۔

لاہور کوئی دیگر پنجاب سے لسانی یا نسلی طور پر جدا شہر نہیں ہے۔ لاہور پر بجا طور پر پورا پاکستان ، پورا پنجاب حق رکھتا ہے اور وہ اس شہر کو اپنے سے جدا تصور بھی نہیں کرتے۔ صد شکر کہ ابھی تک پنجاب میں علاقائی تعصب موجود نہیں ہے لیکن اس کا خدشہ مزید موجود ہے بلکہ حالات اسی سمت بڑھ رہے ہیں۔ ان بڑھتے ہوئے حالات کو ابھی بھی روکا جا سکتا ہے۔ اگر عمران خان کے کے مشیر اس معاملے پر عمران خان کو زبان محتاط انداز میں چلانے کی ہدایت دے دیں۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو پنجاب میں تعصب کی چنگاری خاکم بدہن کہیں کسی المیے کو جنم نہ دے دے کہ مستقبل کا مورخ بھی ساری تباہی میں سے چنگاری لگانے والوں کی وزارتوں کی خواہش کے قصے ہی نہ سنا رہا ہو کہ حقیقت بس یہ تھی۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).