بحریہ ٹاون کے خلاف نیب کی تحقیقات اور میڈیا کی مجرمانہ خاموشی


بحریہ ٹاون کے خلاف سپریم کورٹ کے حالیہ عدالتی حکم کے بعد نیب کے چئیرمین نے اپنے ادارے کے افسران کو بحریہ ٹاون لاہور ، بحریہ ٹاون راولپنڈی اور بحریہ ٹاون کراچی کے خلاف تین ماہ کے اندر تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ بحریہ ٹاون چونکہ ملک ریاض کی ملکیت ہے اور ملک ریاض عسکری اور سیاسی ایسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ تعلقات کے باعث پاکستان کا مضبوط ترین آدمی تصور کیا جاتا ہے اس لئے اس کی ہاوسنگ سوسائٹی کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز قانون کی بالادستی کی جانب ایک خوشگوار قدم دکھائی دینے کے ساتھ ساتھ باعث حیرت بھی ہے۔ ملک ریاض کی ہاوسنگ سکیم بحریہ ٹاون کے متعلق ہر باخبر شخص یہ بات جانتا ہے کہ یہ سکیم سرکاری زمینوں پر قبضے اور کمزور اور بے بس عام انسانوں سے زمینیں زبرستی ہتھیانے کے بعد کھڑی کی گئی۔ حیرت انگیز طور پر ڈان میڈیا گروپ کے علاوہ کسی بھی پاکستانی میڈیا گروپ نے بحریہ ٹاون کے خلاف نیب کی تحقیات کی خبر نہیں چلی۔ ہمارے جنوبی پنجاب کے غم میں گھلنے والے اور سیاستدانوں کے بٹووں کی داستانیں سنانے والے سینئیر صحافی بھی اس معاملے میں زبان کو تالہ لگا کر بیٹھے نظر آئے ۔

ملک ریاض چونکہ میڈیا کو کروڑوں روپے کا بزنس بحریہ ٹاون کی اشتہاری مہم کی مد میں فراہم کرتا ہے اس لئے شاید آزاد میڈیا نمک کا حق حلال کرتے ہوئے بحریہ ٹاون کے خلاف کوئی بھی خبر چلانے سے گریز کرتا ہے۔ ملک ریاض کی عنایتوں کا سلسلہ صحافیوں اور دانشوروں ہر بھی جاری رہتا ہے اس لئے ملک ریاض کی رئیل اسٹیٹ ایمپائر کے حوالے سے کوئی خبر یا تبصرہ بھی شاذر و نادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ وگرنہ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بحریہ ٹاون کی بنیادوں میں بہت سے بے گناہوں کا خون اور بے شمار عام انسانوں کی عمر بھر کی لٹی ہوئی جمع پونجی شامل ہے۔

راولپنڈی میں پہلے باری ملک اور بعد ازاں بدزمانہ انڈر ورلڈ ڈان تاجی کھوکھر کے ساتھ مل کر ملک ریاض نے نہ صرف زمینوں پر قبضے کئے بلکہ اپنے اثرورسوخ کے دم پر ہمیشہ تاجی کھوکھر جیسے بدنام زمانہ انڈرورلڈ کے سرغنہ کی پشت پناہی بھی کی۔ اسی طرح کراچی میں بحریہ ٹاون کے لئے سرکاری زمینیں ہتھیانے میں ملک ریاض کو آصف زرداری کا ساتھ میسر رہا جبکہ نجی زمینیں ہتھیانے کیلئے کراچی کی انڈر ورلڈ کا بھی خوب استعمال کیا گیا۔ ملک ریاض کے ملازموں کی زیادہ تر تعداد ریٹائرڈ فوجی افسران پر مشتمل ہے اور اس کے دئیے گئے پلاٹوں کے تحفے سے چونکہ سیاسی اور دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ اور سول بیوروکریسی کے بڑے بڑے اعلی حضرات مستفید ہو چکے ہیں اس لئے کسی بھی اعتبار سے ملک ریاض کیلئے قانون کو چکمہ دینا یا یوں کہئیے کہ قانون کو اپنی مرضی اور انشا کے تحت موم کی مانند اپنے سانچے میں ڈھالنا کبھی بھی مشکل کام نہیں رہا۔

ملک ریاض بذات خود ٹی وی چینلوں کو اپنے دئیے گئے انٹرویوز میں یہ بات ببانگ دہل بتا چکا ہے کہ اس کی ہاؤسنگ سوسائٹی کی فائلوں کے نیچے “پہیئے” لگے ہوتے ہیں اس لئے اس کی ہاوسنگ سوسائٹی کو ملک کے کسی بھی شہر میں این او سی فورا سے پیشتر مل جاتی ہے۔ ملک ریاض کا یہ بھی کہنا ہے کہ موجودہ نظام میں ہر شخص کی ایک قیمت ہوتی ہے اور اگر آپ صیح بولی لگائیں تو یہاں ہر شخص قابل فروخت ہے۔ اس بات سے آپ ملک ریاض کی کایاں سوچ کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں ۔ ملک ریاض اور اس کے بیٹے کے خلاف موجودہ نوعیت کی نیب انکوائری اور ایک عدالتی کیس 2013 میں بھی درج کیا گیا تھا جس میں ان دونوں باپ بیٹے پر روات کے قریب 1401 کنال اراضی جعلی دستاویزات کے ذریعے ہتھیا کر بحریہ ٹاون میں شامل کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ صرف یہی نہیں روزنامہ ڈان کی چند سال پرانی رپورٹ کے مطابق ملک ریاض پر 56 کے قریب مختلف مقدمات زمینیں ہتھیانے کے حوالے سے مختلف افراد نے درج کروائے تھے لیکن حیران کن طور پر یا تو عدالتوں سے ملک ریاض کو محض ایک یا دو پیشیوں کے بعد ہی بے گناہ قرار دیا جاتا رہا یا پھر وہ کیس فائلوں کے انبار تلے دفن کر دئیے گئے۔ ملک ریاض کے جرائم پر آج تک کیونکر پردہ ڈالا جاتا رہا ہے اور کیسے بحریہ ٹاون کی ہاوسنگ سوسائٹی محض چند برسوں میں ہی پاکستان کی سب سے بڑی ہاوسنگ سکیم بن گئی اس کیلئے ملک ریاض کے ویسپا موٹرسائیکل سے ہیلی کاپٹر تک کے سفر کو جاننا ضروری ہے۔

1979 کی بات ہے جب ملک ریاض نے اپنے ایک دوست سےچند ہزار روپوں کا قرضہ لے کر ملٹری انجینئرنگ کمپلیکس میں ایک ٹھیکہ پکڑا۔ یہ معمولی سا ملٹری سپلائی کا ٹھیکہ دراصل ایک آغاز ثابت ہوا ملک کی ایک سب سے بڑی پراپرٹی کاروباری سلطنت کا۔ ملک ریاض نے اس ٹھیکے کے بعد فوج اور بیوروکریسی میں اپنے تعلقات بہتر کیئے اور آہستہ آہستہ کنسٹرکشن کے کام کی جانب بڑھا۔ آہسته آہسته ٹھیکیداری سے ہاوسنگ سوسائٹی کی تعمیر کی جانب ملک ریاض نے سفر شروع کیا۔  تعلقات اور پیسے کے بل پر بحریہ کا نام استعمال کر کے ملک کی سب سے بڑی ہاوسنگ کالونی بنا ڈالی۔ آغاز میں پاک بحریہ کے چند افسران ملک ریاض کے ساتھ تھے لیکن بعد میں مالی تنازعات کے بعد پاک بحریہ نے اپنے نام کے استعمال کے خلاف ملک ریاض پر کیس درج کر دیا۔ لیکن جو جج کیس سننے آتا وہ ملک ریاض سے یا تو پلاٹ لے چکا ہوتا یا پھر مالی فائدہ۔ اس لئے آج کے دن تک ملک ریاض بحریہ کا نام استعمال کرتا چلا آ رہا ہے۔

ملک ریاض نے ملٹری ایسٹیبلیشمنٹ اور سیاسی ایسٹیبلیشمنٹ کے گٹھ جوڑ سے اپنے کاروبار کو پھیلایا۔  باری ملک، ظفر سپاری اور تاجی کھوکھر جیسے بدمعاشوں کے ذریعے ملک ریاض نے زمینوں پر قبضے بھی کئے اور مہنگی زمینیں زبردستی سستے داموں بھی ہتھیائیں۔  جہاں کوئی قانونی رکاوٹ ملک ریاض کے سامنے آئی ملک ریاض نے پیسے کی طاقت سے اسے دور کر دیا۔  صحافیوں سے لیکر پولیس، سیاستدانوں سے لیکر بیوروکریسی اور ملکی دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ ملک ریاض نے منافع کا رشتہ جوڑا۔ پیسہ، پلاٹ اور گھر بانٹے، یوں آج ملک ریاض پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک شمار ہوتا ہے

بحریہ ٹاون کی جگمگ کرتی روشینوں کے پیچھے ان ہزارہا افراد کے بخت کی سیاہیاں تاریکیوں میں دفن پڑی ہیں جن کی زمینیں اور عمر بھر کی پونجیاں اس ہاوسنگ سوسائٹی کے منافع بخش کاروبار کی نذر ہو گئیں۔ ملکی میڈیا کی بحریہ ٹاون کے موجوہ کیسز پر خاموشی اور ملک ریاض کے جرائم سے منہ موڑنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارا میڈیا بھی بحریہ ٹاون کی مانند صرف “منافع” کو ہی واحد اصول اور شاید اعلی صحافتی اقدار بھی تسلیم کرتا ہے۔ کیا موجودہ سپریم کورٹ کے جج حضرات یا چئیرمین نیب بحریہ ٹاون اور اس کے مالک ملک ریاض کو قانون کی گرفت میں لاتے ہوئے اس کے جرائم کا احتساب کر پائیں گے؟ یہ سوال انتہائی اہم ہے اور ماضی کی مثالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے شاید اس کا جواب کچھ زیادہ مثبت یا حوصلہ افزا نہیں ہے۔ بحریہ ٹاون اور ملک ریاض کے معاملے کو لیکر مین اسٹریم میڈیا کی خاموشی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سستی اس بات کی جانب اشارہ دیتی ہے کہ وطن عزیز کے طاقت ترین لوگ سیاستدان نہیں بلکہ ملک ریاض جیسے افراد ہیں جو ہر ادارے اور ہر بااثر شخص سے منافع کا رشتہ جوڑ کر باآسانی “مقدس گائے” کے رتبے پر فائز ہو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).